Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (37) ۔ گریس ۔ پہلی جنگ عظیم

انیسویں صدی کے آخر میں عثمانی سلطنت یورپ کا مردِ بیمار تھا جو اپنے بسترِ مرگ پر تھا۔ عثمانی سلطنت کے کئی علاقوں میں نیشنلسٹ تحریکیں شروع ہو...


انیسویں صدی کے آخر میں عثمانی سلطنت یورپ کا مردِ بیمار تھا جو اپنے بسترِ مرگ پر تھا۔ عثمانی سلطنت کے کئی علاقوں میں نیشنلسٹ تحریکیں شروع ہو چکی تھیں۔ پہلی جنگ عظیم 1914 سے 1918 تک رہی جبکہ گریس کیلئے یہ 1912 سے 1922 تک۔
یہ 1912 تھا جب پہلی بلقان جنگ چھڑ گئی۔ مونٹی نیگرو میں عثمانیوں کے خلاف کارروائیاں شروع ہو گئی تھیں۔ اس میں سرب، بلغارین اور گریک بھی شامل ہو گئے۔ گریک نے بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اچھی تربیت یافتہ فوج اکٹھی کر لی تھی اور چند ہی ہفتوں میں یہ تھیسالونیکا کی بندرگاہ پر قبضہ کر چکے تھے۔ اس سے کچھ گھنٹوں بعد بلغاریہ کی فوج اپنا قبضہ کرنے یہاں پہنچ گئی لیکن گریس اسے پہلے ہی قبضے میں لے چکا تھا۔ اس سے چند روز بعد کنگ جارج اس شہر میں پریڈ کی قیادت کر رہے تھے۔ اس سے اگلے سال اس کو گریس کا حصہ تسلیم کر لیا گیا۔ اس وقت تک کنگ جارج کو اسے شہر میں گولی مار کر قتل کیا جا چکا تھا۔ (ان کے قاتل گرفتار ہو گئے اور چھ ہفتے بعد تھانے کی کھڑکی سے گر کر فوت ہو گئے)۔ آج سالونیکا گریس کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری بلقان جنگ 1913 میں شروع ہوئی۔ پہلی جنگ میں ہر کوئی عثمانی سلطنت کے خلاف تھا۔ دوسری میں ہر کوئی بلغاریہ کے خلاف تھا۔ بلغاریہ کو رنج تھا کہ وہ تھیسالونیکا کیوں حاصل نہیں کر سکا۔ بلغاریہ کی فوجوں نے گریس پر حملہ کیا۔ اور پھر سربیا پر۔ لیکن پھر پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس وقت تک رومانیہ بھی جنگ میں آ چکا تھا۔ پھر ترک اس میں شامل ہو گئے۔ جب رومانیہ کی فوج بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ کی طرف بڑھ رہی تھی تو بلغاریہ کو غلطی کا احساس ہو چکا تھا۔ بلغاریہ نے امن کی پیش کش کی اور انہیں چاروں دشمنوں کو زمین دینا پڑی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان دونوں جنگوں میں گریس کے ساڑھے نو ہزار فوجی مارے گئے جبکہ اس نے اپنا رقبہ 70 فیصد بڑھا لیا۔ آبادی اٹھائیس لاکھ سے بڑھ کر اڑتالیس لاکھ تک ہو گئی۔ میگالی آئیڈیا اصل ہو رہا تھا۔ پھر پہلی جنگ عظیم آ گئی۔ گریس کے پاس اب انتخاب تھا کہ جنگ سے باہر رہ کر انتظار کرے اور خود کو مضبوط کرے یا پھر جنگ میں چھلانگ لگا دے اور شاید کچھ انعام بھی پا لے۔
گریس نے جنگ کے پہلے تین سال جنگ سے باہر گزارے۔ اس پر دونوں اطراف کی طرف سے شدید دباؤ رہا کہ یہ ان کی طرف سے اس میں شرکت کرے۔ بالآخر اس نے اتحادی افواج کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بلغاریہ کا دفاع توڑنے میں مدد کی۔ اور اس وجہ سے اسے موقع مل گیا کہ جنگ کے بعد پیرس امن کانفرنس میں مزید علاقہ لینے کا دعویدار بن جائے۔
گریس کو جنگ کے مالِ غنیمت میں سمائرنا کی بندرگاہ مل گئی۔ 1919 میں اس کی افواج یہاں داخل ہو گئیں۔ یہ اسے انعام کے طور پر ملا تھا۔ یہاں پر گریک آبادی بھی اچھی تعداد میں تھی۔ اتحادی افواج استنبول میں تھیں۔گریک قوم پرست اب یہ خواب دیکھ رہے تھے کہ پہلے سمائرنا کو لیا جائے گا۔ پھر عثمانی سلطنت کے مرکز استنبول پر قبضہ کر کے پرانی بازنطینی سلطنت بحال کی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف، ترک قوم پرستوں نے گریک افواج کی آمد کو موقع کے طور پر دیکھا کہ جنگِ عظیم کی شکست کے بعد ملک پر ہونے والے قبضے سے آزادی کی جنگ شروع کی جا سکے۔ حسب توقع، گریک افواج سمائرنا  تک محدود نہیں رہی تھیں اور ملک کے اندر کا رخ کر لیا تھا۔ لیکن اب انہیں ترک قوم پرستوں سے پالا پڑ گیا۔ مصطفٰے کمال کی قیادت میں ترک فوج نے مقابلہ کیا اور 1922 کے موسم گرما تک گریک  فوج پسپا ہو چکی تھی۔ جب مصطفےٰ کمال کی افواج سمائرنا میں داخل ہوئیں تو جنگ ختم ہو گئی۔ دسیوں ہزار لوگ مارے جا چکے تھے۔ گریس کا بازنطینی ریاست بحال کرنے کا خواب شہر کی طرح راکھ کا ڈھیر تھا۔
علاقے کی گریک آبادی نے سیاستدانوں کا انتظار نہیں کیا اور یہاں سےلوگ نقل مکانی شروع ہو گئی۔ چند مہینوں بعد لوزین کا معاہدہ (1923) ہوا۔ اس میں آبادی کی منتقلی لازم قرار پائی۔ گریس اور ترکی، دونوں نے کہا تھا کہ ہم اقلیتوں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ پندرہ لاکھ گریک آرتھوڈوکس ترکی سے گریس چلے گئے جبکہ دوسری طرف سے چار لاکھ مسلمان ترکی آ گئے۔  یہ سب واقعات صدیوں کی تاریخ کی بنیاد پر ہوئے تھے۔ اور آج بھی ترکیہ اور گریس کے مشکل تعلقات کا سبب ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان واقعات کے سیاسی اثرات دور رس تھے۔  تھیسالونیکا بلقان میں سب سے زیادہ یہودی آبادی والا شہر تھا۔ باہر سے آنے والے لاکھوں افراد کی منزل بھی۔ اس شہر پر معاشی دباؤ آیا۔  پہلے سے مقیم آبادی کے لئے زندگی مشکل ہوئی اور صدیوں سے یہاں رہنے والوں کی صیہونی تحریک میں دلچسپی بڑھ گئی۔ اور انہوں نے باہر کا رخ کیا۔ ان کی منزل برطانویوں کا فلسطین مینڈیٹ تھا۔
(جاری ہے)