Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (35) ۔ گریس ۔ تاریخ

ایتھنز اور سپارٹا کے درمیان 431 قبل مسیح میں شروع ہونے والی تیس سال کی جنگیں لوگوں کے لئے مصیبت لے کر آئیں۔ لیکن جب ختم ہوئیں تو ایتھنز کے ...


ایتھنز اور سپارٹا کے درمیان 431 قبل مسیح میں شروع ہونے والی تیس سال کی جنگیں لوگوں کے لئے مصیبت لے کر آئیں۔ لیکن جب ختم ہوئیں تو ایتھنز کے پاس بڑا علاقہ تھا۔ اس میں اناطولیہ کا کچھ علاقہ بھی تھا جو آج ترکیہ میں ہے۔ یہ اگلی صدیوں کے تنازعات اور مسائل کی وجہ رہا اور آج بھی ہے۔ اس سے ایک صدی بعد ایتھنز پھر حالت جنگ میں تھا۔ اس بار اپنے ہمسائے مقدونیہ کے بادشاہ فلپ دوئم کے ساتھ۔ کنگ فلپ نے گریس کو مقدونیہ کی سربراہی میں اکٹھا کر لیا۔ گریک شہری ریاستیں مقدونیہ کو پسماندہ علاقے کے طور پر دیکھتی تھیں لیکن اس کے پاس دریا سے سیراب ہونے والی زرعی زمین تھی جہاں بڑی آبادی تجارت کے بغیر گزارا کر سکتی تھی۔فلپ اور پھر ان کے بیٹے سکندر اعظم نے اس کو سلطنت بنا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن گریس کے پاس اتنے زمین نہیں تھی کہ بڑی تعداد کی آبادی کو کھلا سکتی جبکہ آئیونی سمندر کے پار ایک طاقت تھی جس کے پاس وافر پانی اور وسیع زرخیز وادیاں تھیں۔ جن میں دریا بہتے تے۔ رومی سلطنت یہاں پہنچ گئی تھی۔ یہاں سے انہوں نے گریس پر حملہ کیا اور 299 میں اسے قبضے میں لے لیا۔
یہ قدیم یونان کا خاتمہ تھا۔ رومی حکمرانی میں شہری ریاستوں کو خودمختاری دی گئی۔ ایتھنز پر رومی فکر کا اثر آیا۔ اور رومی سلطنت کا حصہ بننے کا فائدہ یہ ہوا کہ گریک کلچر دور تک پھیلا۔ لیکن یہ خود طاقت نہیں تھے۔ اور اس کے بعد یہ دنیا کی شہہ سرخیوں سے نکل گئے۔ اگلے دو ہزار سالوں میں رومی، بازنطینی، عثمانی، برٹس اور روسیوں نے گریس کو اپنی قسمت اپنے ہاتھ میں لینے سے روکا۔ ان سب کی خواہش ایجین سمندر اور بحیرہ روم پر حاوی ہونا تھا اور کمزور گریس ان کے لئے مفید تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوتھی صدی میں رومی سلطنت دولخت ہوئی۔ مشرق میں بازنطینی سلطنت بن گئی۔اس کا دارالحکومت قسطنطنیہ تھا جہاں گریک زبان بولی جاتی تھی۔ اگلے ایک ہزار سال تک ایسا ہی رہا۔ بازنطینی ایک طرح سے گریک ریاست تھی اور اس ملک میں ماضی پرست عظمت رفتہ کی یاد کے لئے بازنطینی ریاست کے عروج کا وقت استعمال کرتے رہے ہیں اور اس کے احیا کے خواب دیکھتے رہے ہیں۔ گریک کے کئی حصوں پر فرنگی، سرب اور وینس والے قبضہ کرتے رہے لیکن قسطنطنیہ کو نہیں چھیڑا گیا۔
یہ 1453 میں تبدیل ہوا۔ عثمانیوں نے قسطنطنیہ کو فتح کر لیا۔ یہ نئی قوت تھی۔ اگلی دو صدیوں تک عثمانی جزائر پر حاوی رہے۔ گریک اپنے الگ کونے تک محدود ہو گئے جو پہاڑی علاقے تھے، جہاں پر عثمانی کبھی قابض نہیں ہوئے۔عثمانیوں نے بلقان فتح کر لیا اور ویانا تک پہنچ گئے۔ لیکن 1683 میں انہیں بڑی عسکری شکست ہوئی جس کے بعد اس سلطنت کا زوال شروع ہوا اور گریس کے لئے آزادی کی راہ بنی۔
(جاری ہے)