Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (34) ۔ گریس ۔ جغرافیہ

گریس کا 80 فیصد پہاڑی علاقہ ہے۔ پیڈوز کے پہاڑی سلسلے البانیہ اور میسیڈونیا کی سرحد سے نیچے آتے ہیں جہاں پر کئی جگہیں ایسی ہیں جنہیں عبور نہ...


گریس کا 80 فیصد پہاڑی علاقہ ہے۔ پیڈوز کے پہاڑی سلسلے البانیہ اور میسیڈونیا کی سرحد سے نیچے آتے ہیں جہاں پر کئی جگہیں ایسی ہیں جنہیں عبور نہیں کیا جا سکتا۔ کھڑی چٹانیں ہیں جہاں بکریاں تو پالی جا سکتی ہیں لیکن بڑے پیمانے پر زراعت نہیں ہو سکتی۔ پہاڑی سلسلے کے مشرق پر ساحل کے قریب تنگ زرعی میدان ہیں جہاں بہترین زراعت کی جا سکتی ہے۔ اور یہاں سے یونانی سلطنت پروان چڑھی جہاں سے سکندراعظم کی فوج بھی بنی۔ لیکن زیادہ تر زمین یا تو پہاڑی ہے، یا جنگل سے ڈھکی ہے یا ناقص مٹی والی زمین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب قدیم یونانی شہری ریاستیں بنیں تو پہاڑیاں انہیں پھیلنے کی زیادہ جگہ نہیں دیتی تھیں۔ آبادیوں کے مراکز کے روابط کمزور تھے۔ اندرونی تجارت کم تھی۔ اور مضبوط مرکزی کنٹرول مشکل تھا۔ اور یہ وجہ ہے کہ اگرچہ آج یہ ایک سیاسی اکائی، گریس، تلے ہے لیکن اس کے اندر کے علاقے اپنی منفرد خاصیتیں رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زراعت محدود ہے تو جی ڈی پی کا صرف چار فیصد یہاں سے آتا ہے۔ اور اس کے تنگ میدانوں کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہمیشہ خوراک درآمد کرنے پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اس وقت بھی یہاں پر سڑکیں یا ریلوے بنانے میں دشواری ہوتی ہے۔ دریاؤں پر اچھے راستے نہیں۔ سٹروما اور ایگزیوس دریا بلقان سے آتے ہیں لیکن گہرے نہیں۔
اور یہ چیز گریس پر حملے کو مشکل کر دیتی ہے۔
جزیرہ نما کی مشکل زمین کی وجہ سے گریک ماہر ملاح بنے۔ اور پھر ان تجارتی راستوں کی حفاظت بھی کرنا تھی۔ اس کے لئے بحریہ درکار تھی۔ اور ابھی بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ زمین تھی جہاں سے ایتھنز کی شہری ریاست اٹھی۔ یہ مغربی دنیا کی سب سے ترقی یافتہ ریاست تھی۔ یہ شہر بلندی پر تھا جہاں قریبی میدانوں کی نگرانی کی جا سکتی تھی۔ اور ایجین سمندر سے صرف چھ کلومیٹر دور تھا۔ اسے چھ ہزار سال قبل بسایا گیا۔ یہاں پر قدیم محل ساڑھے تین ہزار سال پرانا ہے اور شہر کی قدیم دیوار کے آثار 1200 قبل مسیح کے ہیں۔
اونچی زمین، سمندر تک رسائی اور بحری طاقت نے ایتھنز کو دوسری ریاستوں، جیسا کہ سپارٹا، پر سبقت دی۔ چھٹی صدی قبل مسیح تک یہ علاقائی طاقت بن چکا تھا۔ لیکن اتنا طاقتور نہیں تھا کہ ایک بہت طاقتور دشمن ۔۔۔ جیسا کہ فارس ۔۔۔ کا سامنا کر سکے۔
فارس کی سلطنت نے 480 قبل مسیح میں ایک بڑی فوج ایتھنز سے 135 کلومیٹر دور اتاری۔ دسیوں ہزار کی فوج ساحلی میدانوں سے آئی جس کا مقصد گریس فتح کرنا تھا۔ تھرموپائیلی کی جنگ ہوئی جو کہ قدیم وور کی مشہور جنگ ہے۔
فارس نے نقصان اٹھایا لیکن قبضہ کر لیا۔ اگلے سال فارس کی فوج کو شکست ہوئی۔ ایتھنز کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ انہیں شہر کی دیوار کو ساڑھے چھ کلومیٹر دور بندرگاہ تک توسیع دینی ہے۔ اور ساتھ ہی بحری قوت بڑھانی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایتھنز گریس کی طاقت تھی۔ یہاں کے دانشوروں اور فلسفیوں نے ڈھائی ہزار سال تک انسانیت پر اثر برقرار رکھا ہے۔ تعلیم، سائنس، بحث، آرٹس اور جمہوریت کے تجربات امن اور ترقی کے دور میں ہوئے۔ کورنتھ زیادہ امیر تھا۔ سائراکوز زیادہ بڑا تھا۔ سپارٹا زیادہ طاقتور تھا لیکن سقراط سے ارسطو تک کے ذہن ایتھنز نے پیدا کئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایتھنز کو سفر کرنے اور دنیا سے سیکھنے کا شوق تھا۔ افلاطون لکھتے ہیں کہ “یونانیوں نے دوسروں سے جو سیکھا، اسے مکمل کیا۔ ہپوڈامس نے شہری منصوبہ بندی کو، ارسطو نے فلسفے کو، بقراط نے طب کو، فیثاغورث نے ریاضی کو”۔ آج انگریزی میں ڈیڑھ لاکھ الفاظ گریک سے آئے ہیں۔
(جاری ہے)