Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (32) ۔ سعودی عرب ۔ مستقبل

سعودی عرب کی اگلے کئی سال تک حکمت عملی امریکہ کے ساتھ رہنا ہو گی۔ کیونکہ اس کے بغیر ملک کی بحری سرحدیں غیرمحفوظ ہو جاتی ہیں۔ خلیج فارس اور ب...


سعودی عرب کی اگلے کئی سال تک حکمت عملی امریکہ کے ساتھ رہنا ہو گی۔ کیونکہ اس کے بغیر ملک کی بحری سرحدیں غیرمحفوظ ہو جاتی ہیں۔ خلیج فارس اور بحیرہ احمر میں چوک پوائنٹ ہیں۔ سعودی عرب کی بحریہ مضبوط نہیں۔ اور ان مقامات پر خطرہ ہے کہ کوئی حریف سعودی برآمدات کو بحرہند یا سویز تک پہنچنے سے روک سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ چین سے مراسم بڑھ رہے ہیں۔ چین نے سعودی عرب کو میزائل فروخت کئے ہیں۔ تیل کی تجارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہواوے پر مغربی ممالک نے پابندی لگائی لیکن سعودی عرب میں 5G کی تنصیب کا معاہدہ ہواوے نے جیت لیا۔ اور چونکہ چین کسی ملک کے اندرونی معاملات پر اعتراض نہیں کرتا تو یہ زیادہ تر عرب سیاستدانوں کے لئے پرکشش ہے۔
محمد بن سلمان کی بہت اچھی دوستی متحدہ امارات کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید سے ہے۔ سعودی عرب، امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ بھی خاموشی سے تعلقات بہتر کئے ہیں۔ اگرچہ سعودی بادشاہ شاہ سلمان اس کے حق میں نہیں تھے لیکن محمد بن سلمان کا خیال ہے کہ نئی نسل کیلئے یہ مسئلہ پچھلی نسل جتنا اہم نہیں رہا۔ عرب ممالک کی سب سے زیادہ دلچسپی اسرائیل کی زرعی صنعت میں ہے جس نے “صحرا کو گلزار” کر دیا۔
سعودی عرب نے عرب نیشنلزم پر عملی اپروچ لی ہے۔ 1960 اور 1970 کی دہائی میں کئی عرب دانشور پان عرب ازم کے حق میں تھے۔ مصر، شام اور دوسرے ممالک میں یہ مقبول خیال رہا تھا کہ عرب ایک ریاست میں اتحاد کر لیں۔ سعودی عرب اس کے خلاف رہا ہے اور یہاں پر بادشاہت کے ساتھ وفاداری کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے۔ نہ ہی جمہوریت پرکشش ہے۔ اس کی زیادہ دلچسپی معاشی اور سیاسی فورم میں رہی ہے۔ اس کا مقصد خلیجی ممالک میں تجارت آسان کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ سعودی عرب ہمیشہ سے شخصی بادشاہت رہا ہے۔ اس لئے ایک شخص کے ذہن کے خیالات کا پورے ملک پر بڑا اثر ہوتا ہے اور اس وقت اس کے لئے یہ ذہن محمد بن سلمان کا ہے۔ اگلے برسوں میں انہیں توازن برقرار رکھنے کے مشکل کھیل کا سامنا ہو گا۔ قدامت پسندوں اور اصلاحات کا۔ آزادی اور جبر کا۔ عرب شناخت اور سعودی شناخت کا۔ مشرقی صوبے اور یمن میں۔
کیونکہ عدم توازن ملک کے طویل استحکام کو الٹا سکتا ہے اور یہ صرف اس کیلئے ہی نہیں بلکہ دنیا کے لئے تباہ کن ہو سکتا ہے۔
اس وقت محمد بن سلمان لوگوں کو ایک نیا سماجی معاہدہ پیش کر رہے ہیں۔ ایسی معیشت جس کا تیل پر انحصار کم ہو اور یہ تیل کے عہد کا ختم ہونا برداشت کر سکے۔ بیوروکریسی اور کرپشن کم ہو۔ ملک میں تفریح کے مواقع میسر ہوں جو باقی تمام دنیا میں ہیں۔ اور جواب میں لوگوں کو سبسڈی پر انحصار ختم کرنا ہو گا اور کام کرنا پڑے گا۔ مذہبی قدامت پرستوں کو یہ قبول کرنا پڑے گا کہ ان کا اثر کم ہو جائے گا اور ملک سے نظریاتی برآمد کم ہو گی۔ کیونکہ اگر دنیا کا سعودی عرب سے انحصار کم ہوا تو برداشت بھی کم ہو جائے گی۔
اور یہ اس اصول کو توڑتا ہے جو کہ تین سو سال پہلے سعود اور وہاب کے اتحاد کی بنیاد تھا۔ اس کی بنیاد پر محمد بن سلمان نے آبادی سے ایک اور سماجی معاہدہ کیا تھا۔ لوگ فرمانبردار رہیں گے اور جواب میں تیل کی دولت سے انہیں اچھی زندگی ملے گی۔ محمد بن سلمان کے ماڈل میں تیل کی آمدن کا کردار کم ہے۔
اور اگر اصلاحات نہ ہوئی اور دنیا نے تیل کو چھوڑ دیا تو سعودی عرب کے پاس باقی دنیا کو دینے کے لئے کیا اور ہے ۔۔۔ ریت؟
سعودی قیادت اس لئے نیا معاشرہ قائم کرنا چاہتی ہے۔ نئی معیشت اور کام کرتی ہوئی فوج۔ ابھی فی الحال تو ایسا ہی رہے گا کہ امریکی سعودیوں کی طرف سے لڑیں گے تاکہ سیاہ سیال بہہ کر دنیا کی معیشت کا پہیہ چلائے رکھے۔ لیکن ہم اگلے دور کی طرف بڑھ رہے ہیں۔  ہو سکتا ہے کہ اس میں صحرا میں دھوپ کی نعمت کو توانائی میں بڑے پیمانے پر تبدیل کیا جا رہا ہو۔ لیکن اس مستقبل میں سعودی سولر پینل کا دفاع انہیں خود ہی کرنا ہو گا۔
(جاری ہے)