Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (31) ۔ سعودی عرب ۔ اصلاحات

 محمد بن سلمان سعودی عرب کے ایک غیرروایتی حکمران ہیں۔ اگرچہ کہ وہ ابھی ولی عہد ہیں لیکن سعودی عرب میں عنان اقتدار انہیں کے پاسہے اور مشرقِ و...


 محمد بن سلمان سعودی عرب کے ایک غیرروایتی حکمران ہیں۔ اگرچہ کہ وہ ابھی ولی عہد ہیں لیکن سعودی عرب میں عنان اقتدار انہیں کے پاسہے اور مشرقِ وسطی کی سب سے طاقتور شخصیت ہیں۔ ان پر تنقید کی بہت سے وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بنیادی طور پر اصلاح پسند ہیں۔ ان کے گرد نوجوان مشیر ہیں اور یہ تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ سعودی عرب میں اب خواتین گاڑی چلا سکتی ہیں، سفر کر سکتی ہیں، سنیما کھل چکے ہیں، مذہبی پولیس کو روکا جا چکا ہے، معیشت کی تنظیم نو ہو رہی ہے۔ سعودی جانتے ہیں کہ ایسا نہ کیا گیا تو ملک کو خطرہ لاحق ہو گا۔
تیل کی قیمت کا اتار چڑھاؤ کسی کے کنٹرول میں نہیں اور معیشت کا اس پر انحصار زیادہ ہے ۔ اس لئے یہاں طویل مدت کی منصوبہ بندی ہے جو وژن 2030 ہے۔
اس میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ معیشت کو تیل کے علاوہ تنوع درکار ہے۔ ٹیکنالوجی اور خدمات کے شعبے پر توجہ دی جانی ہے۔ سعودی عرب کے فارن ریزرو کم ہو رہے ہیں۔ سعودی ریاست کا فلاحی نظام غیرمعمولی طور پر فیاض ہے۔ اور یہ ایسا نہیں چل سکتا۔ لیکن اس کو کم کر دینے کا مطلب بے روزگاری اور ملک میں بے چینی ہو گا۔ سعودی عرب نے آرامکو کا کچھ حصہ بھی اس لئے فروخت کر دیا ہے کہ اس سے پیسے اکٹھے کئے جا سکیں اور ابھی مزید بیچنے کا ارادہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواتین کو کام کرنے کے لئے نکالا جا رہا ہے اور توقع ہے کہ یہ بیرونی ورک فورس کو کم کرنے میں مدد کرے گا۔
اس وقت سعودی عرب کی 35 ملین آبادی میں سے 13 ملین بیرونِ ملک سے ہے۔ اس میں بیس لاکھ کے قریب بنگلہ دیشی، اٹھارہ لاکھ پاکستانی، اتنے ہی انڈین اور یمنی ہیں۔ اس کے علاوہ پندرہ لاکھ مصری، آٹھ لاکھ سوڈانی اور سات لاکھ فلپائن سے ہیں۔   
مقامی نوجوان آبادی میں بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے۔ بیرون ملک کے کام کرنے والوں کو سعودیوں سے اور تیل کو ٹیکنالوجی سے تبدیل کرنے کی کوشش ایک جوا ہے۔
سعودی عرب نے بڑی دھوم دھام سے بحیرہ احمر کے کنارے نیوم بنانے کا اعلان کیا تھا۔ یہ پانچ کھرب ڈالر کا منصوبہ ہے جس میں گاڑیاں بغیر ڈرائیور کے ہوں گی۔ روبوٹ کام کیا کریں گے۔ توانائی میں خودکفیل ہو گا۔ اس منصوبے کے وقت پر مکمل ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعودی عرب اپنے تیل کا ایک چوتھائی ملک کے اندر خرچ کرتا ہے اور یہ حکومتی آمدنی کو متاثر کرتا ہے۔ حکومت پٹرول اور بجلی اپنی آبادی کو بہت سستی دیتی ہے۔ یہ ماحول کے لئے تو بہت برا ہے ہی لیکن سعودی معیشت کے لئے بھی۔ اگر کوئی اپنی بہت بڑی گاڑی میں گھر جا رہا ہے جہاں اس نے ویک اینڈ پر ائرکنڈیشنر بند اس لئے نہیں کیا کہ واپسی پر گھر ٹھنڈا ملے تو یہ حکومتی خزانے کا بھی دانشمندانہ استعمال نہیں۔ اب سعودی عرب اس میں اصلاحات کر رہا ہے۔ اس وقت سعودی عرب تیل کا چھٹا سب سے بڑا صارف ہے اور ستر فیصد بجلی ائیرکنڈیشنگ میں استعمال ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن سعودی عرب کو تیل جلانا ہی ہے۔ اپنی گاڑیوں یا ائیرکنڈیشننگ کے لئے ہی نہیں بلکہ اس لئے کہ وہ پانی پی سکیں۔ سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کا دنیا کا سب سے بڑا آپریشن سعودی عرب میں ہے۔ اور اس میں مسئلہ یہ ہے کہ اس کے لئے بہت ساری بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ تیل سے آتی ہے۔ دریا کے بغیر ملک میں اس کے سوا اور کوئی آپشن نہیں۔ یہ الگ بات کہ یہ مہنگی ہے اور ماحول کی آلودگی کے لئے اچھی نہیں۔
ایک وقت میں سعودی عرب میں زیرِ زمین پانی اچھی مقدار میں ہوا کرتا تھا لیکن زراعت کی وجہ سے یہ کم ہوتا گیا ہے۔ زراعت صرف اس لئے ممکن ہے کہ حکومت بھاری سبسڈی دیتی ہے۔ کسانوں کے لئے یہ پانی سستا ہے لیکن ملک کے لئے نہیں۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ سعودی عرب اپنے زیرِزمین پانی کا اسی فیصد استعمال کر چکا ہے۔ حکومت غور کر رہی ہے کہ گندم کی پیداوار کو بہت کم کیا جائے۔ حکومتی خزانے کو دوسرے ممالک میں زمین خرید کر وہاں فصل اگانے کیلئے استعمال کیا جائے۔
سعودی حکومت ری نیو ایبل توانائی میں بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ ٹیسلا کا پانچ فیصد سعودی عرب کی ملکیت ہے۔ اس کی جنرل موٹرز کی برقی گاڑیوں میں بھاری سرمایہ کاری ہے۔ اس کے علاوہ بھی سبز توانائی کے دنیا بھر میں درجنوں پراجیکٹس میں بھی۔ اس کا ارادہ ہے کہ 2030 تک اپنے ملک میں کم از کم سات فیصد بجلی سورج سے پیدا ہو۔ اور حکومت نے یہ خیال بھی دیا ہے کہ دس سال میں یہ بیس فیصد تک پہنچ جائے گی۔ اگرچہ یہ ٹارگٹ بہت جارحانہ ہے لیکن سعودی عرب کے پاس شمسی ریڈی ایشن کی بہتات ہے اور اس کی فیکٹریاں سولر پینل بنا رہی ہیں۔
معاشی لحاظ سے ایک اور توازن بھی رکھنا ہے۔ معاشی جمع خرچ کے دوران عام لوگوں کو زیادہ مشکل نہ ہو۔ تیل پر سے سبسڈی کم کرنے سے عام لوگوں پر اثر آئے گا۔  
(جاری ہے)