Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (30) ۔ سعودی عرب ۔ ولی عہد

محمد بن سلمان سعودی عرب کے لیڈر ہیں۔ اور طاقت کے بہت سے لیور ان کے ہاتھ میں ہیں اور وہ غیرفعال تماشائی نہیں۔ وزیر دفاع کے طور پر 2015 سے محم...



محمد بن سلمان سعودی عرب کے لیڈر ہیں۔ اور طاقت کے بہت سے لیور ان کے ہاتھ میں ہیں اور وہ غیرفعال تماشائی نہیں۔
وزیر دفاع کے طور پر 2015 سے محمد بن سلمان فرنٹ فٹ پر تھے۔ انہوں نے قطر پر اقتصادی پابندی عائد کر دی تھی کہ وہ ایران کا ساتھ دے رہا ہے اور فلسطین اور مصر کے اسلامی گروپ فنڈ کر رہا ہے۔ ایک اور مسئلہ الجزیرہ ٹی وی کا تھا۔
سعودی عرب کا ایک اور عسکری حملہ یمن پر تھا۔ یہ حوثیوں کے خلاف تھا اور سعودی ان کا کنٹرول یمن پر نہیں چاہتے تھے۔ یمن سے سعودی عرب نے یمن سے 1934 کی جنگ میں علاقہ لیا تھا۔
یمن کی جنگ ناکام رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد بن سلمان کی خارجہ پالیسی جارحانہ تھی جس کی ایک عجیب مثال 2017 میں نظر آئی۔ لبنانی وزیراعظم سعد الحیریری ریاض کا دورہ کرنے آئے۔ اور یہاں پر انہوں نے استعفی دینے کا اعلان کر دیا۔ انہیں سعودی عرب آنے کے بعد باڈی گارڈز سے الگ کیا گیا تھا۔ ان کا فون لے لیا گیا تھا۔ کمرے میں بند کر دیا گیا تھا۔ اور استعفی دینے والی تقریر انہیں تھما دی گئی تھی۔
اگلے چند دنوں میں لبنان کے حکومتی اہلکاروں نے امریکہ، مصر، فرانس اور دنیا کے دیگر ممالک کو دیوانہ وار فون کئے کہ ان کے وزیراعظم زیرحراست ہیں۔ چند دنوں اور بہت سی حکومتوں کی درخواست پر انہیں واپس جانے دیا گیا۔ اور جاتے ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ وہ استعفی واپس لے رہے ہیں۔
سعودی اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ حریری کو ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ تاہم، سعودی دورے کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کی وضاحت نہیں کر پاتے۔ (سعد الحریری کو واپسی کے ایک ماہ بعد وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ اپنے سعودی دورے کے بارے میں کچھ بھی بتانے سے انکار کرتے ہیں اور اب سیاست سے الگ ہو چکے ہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے زیادہ بڑا واقعہ 2018 میں پیش آیا۔ جمال خشوگی سعودی صحافی اور حکومت کے ناقد تھے۔ 2 اکتوبر کو وہ استبول میں سعودی سفارتخانے گئے لیکن باہر نہیں نکلے۔
سعودی کہتے رہے کہ وہ چلے گئے تھے لیکن اس بات کا جلد ہی پتا لگ گیا کہ انہیں عمارت کے اندر ہی قتل کر دیا گیا ہے اور لاش کو ٹکڑے کر دیا گیا ہے۔ ترک حکومت نے میڈیا کو بتایا کہ یہ “بہت اونچی جگہ” کے حکم پر کیا گیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس روز پندرہ سعودی صبح جہاز پر آئے اور کام کر کے نکل گئے۔
کیمرے سے ویڈیو سامنے آ چکی تھی۔ سعودی حکومت نے 19 اکتوبر کو تسلیم کیا کہ خشوگی کو سفارت خانے کے اندر قتل کیا گیا ہے۔ لیکن ایسا کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ ان کی لڑائی ہوئی اور وہ مارے گئے۔ اس کے بعد سعودی حکومت نے کہانی بدلی اور کہا کہ یہ بلااجازت کیا جانے والا آپریشن تھا اور ولی عہد اس خبر سے صدمے میں ہیں۔
لوگ گرفتار ہو گئے۔ لیکن خشوگی کی فیملی جو سعودی عرب میں ہی تھی، اس نے انہیں “معاف” کر دیا۔ 2020 میں ایک عدالت نے آٹھ ملزمان کو قید کی سزا سنا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس واقعے نے ولی عہد کا دنیا میں امیج خراب کیا۔ انہیں فاصلے پر رکھا جا رہا تھا، لیکن رفتہ رفتہ سب واپس معمول پر آ گیا۔ پاکستان، انڈیا، ترکیہ اور چین کے ساتھ خاص طور پر گرمجوشی میں اس سے فرق نہیں پڑا۔ سعودی عرب کے پاس وہ ہے جو دنیا کو درکار ہے۔
ولی عہد کے ملک میں کئے گئے کام بھی عالمی سرخیوں میں آئے۔ لبنان کے وزیراعظم کے “دورے” کے بعد کئی شاہی خاندان کے بہت سینئیر افراد کو رٹز کارلٹن میں ٹھہرا دیا گیا۔ یہ شاندار ترین ہوٹل ہے۔ خفیہ ایجنسی نے کمرے بک کئے تھے۔ زیادہ تر مہمانوں کو اس بارے میں علم نہیں تھا۔ گیارہ شہزادے اور سیاسی، فوجی اور بزنس اشرافیہ کے درجنوں لوگ اس ہوٹل میں لے جائے گئے۔ اس میں شہزادہ مطب بن عبداللہ بھی تھے جو محمد بن سلمان کے کزن اور نیشنل گارڈ کے کمانڈر تھے۔
ان سب کو اس ہوٹل میں نظربند کر دیا گیا۔ کئی ہفتے تک یہ چلتا رہا۔ نظربند افراد میں سے کسی کو یاد آتا تھا کہ کسی طرح سے سرکاری اکاؤنٹ کے پیسے غلطی سے اس کے اکاونٹ میں آ گئے ہیں جو کہ لوٹانے ہیں۔ شہزادہ مطب کے پاس سے ایسے ایک ارب ڈالر نکل آئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ اندرونی طور پر ایک اور مسئلہ مشرقی صوبے کا ہے۔ یہاں پر شیعہ اکثریت ہے اور یہ پسماندہ حصہ ہے۔ یہاں پر 2011 میں شروع ہونے والی گڑبڑ کو بے رحمی سے کچلا گیا تھا۔
(جاری ہے)