Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (3) ۔ آسٹریلیا ۔ جغرافیہ

جیمز کک 1770 میں آسٹریلیا پہنچے تھے۔ یورپی آبادکاروں نے اس کے بعد اس علاقے کا رخ کیا تھا۔ یہ آبادکار آسٹریلیا میں ساحلوں کے ساتھ ہی آبا...


جیمز کک 1770 میں آسٹریلیا پہنچے تھے۔ یورپی آبادکاروں نے اس کے بعد اس علاقے کا رخ کیا تھا۔ یہ آبادکار آسٹریلیا میں ساحلوں کے ساتھ ہی آباد ہوئے۔ اور ایسا ابھی بھی ہے۔ آباد علاقوں کی ہلال کی شکل کی پٹی ہے جو مشرق میں برسبین سے شروع ہوتی ہے۔ ساحل کے ساتھ ساتھ سڈنی، کینبرا، ملبورن سے ہوتی ہوئی جنوب میں ایڈلیڈ تک جاتی ہے۔ پھر کچھ چھوٹے شہر اور دیہات سے گزرتے ہوئے غیرآباد ہوتی جاتی ہے۔ مغرب کے ساحل پر پرتھ اور شمال کی ساحل پر ڈارون کا شہر ہے۔ اور امکان ہے کہ یہ ایسا ہی رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سے ایک صدی قبل سڈنی یونیورسٹی کے جغرافیہ دان گرفتھ ٹیلر نے کہا تھا کہ آسٹریلیا کا جغرافیہ اسے محدود کرتا ہے اور اس کی وجہ سے اکیسویں صدی کے آغاز تک بھی اس کی آبادی دو کروڑ کے قریب ہی رہے گی۔
ان کی اس پیشگوئی نے تنازعہ کھڑا کر دیا تھا اور تنقید کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ انہیں محب وطن نہ ہونے کے طعنے ملے جنہوں نے ارض وطن کو بے کار قرار دیا تھا۔ “ہم اگلا امریکہ ہیں” کے دعووں نے گرفتھ ٹیلر کی پیشگوئی کو ڈبو دیا۔ لیکن ٹیلر ٹھیک تھے۔ آج آسٹریلیا کی آبادی ڈھائی کروڑ ہے۔آج بھی آپ سڈنی سے ڈارون کا 3200 کلومیٹر کا جہاز پر سفر کر سکتے ہیں جس میں کوئی آبادی نظر نہیں آئے گی۔
پچاس فیصد آبادی تین شہروں میں رہتی ہے جو کہ سڈنی، ملبورن اور برسبین ہیں۔ اور یہ اتفاق نہیں کہ یہ علاقہ مرے ڈارلنگ دریا کا طاس ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں کے زیادہ تر دریا موسمی ہیں۔ پورے براعظموں کا سالانہ بہاؤ ملا کر بھی چین کے یانگ زی دریا کے نصف سے کم ہے۔ اگر تسمانیہ (جو الگ جزیرہ ہے) کو نکال دیا جائے تو مستقل دریا صرف مشرق اور جنوب مغرب میں ہیں۔ بڑے دریا آسٹریلین ایلپس کی پگھلتی برف سے شروع ہوتے ہیں جو کہ مرے اور اس کی شاخ ڈارلنگ ہیں۔ مرے 2500 کلومیٹر بہتا ہے۔ لیکن تجارت کے لئے بہت زیادہ مفید نہیں رہا کیونکہ خشک موسم میں چھوٹے جہاز بھی یہاں پھنس جایا کرتے تھے۔ لیکن اس کے ساتھ یہاں زرخیز زمین ہے جو آسٹریلیا میں نسلوں سے لوگوں کو خوراک اور پانی فراہم کرتی آئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر آسٹریلیا کی تاریخ کا موازنہ امریکہ کی تاریخ سے کرنا دلچسپ ہو گا۔ دونوں کالونیل تجربات تھے جو کہ علاقے کے مشرقی ساحل کے زرخیز علاقے میں آبادی سے شروع ہوئے اور آگے بڑھے۔ امریکہ میں اپالاچی پہاڑوں کو پار کرنے کے بعد اس نئی آبادی کو دنیا کا عظیم ترین دریائی نظام اور زرخیز ترین زمین ملی۔ یہ مسسپی دریا کا طاس تھا۔ آسٹریلیا بھی اسی سائز کا ہے جس میں آگے بڑھنے والوں کو جو زمین ملی، وہ زراعت، مستقل آبادکاری اور ذرائع آمدورفت کے لئے زمین موزوں نہیں تھی۔ اور یہ عالمی تجارتی نظام سے دور تھا۔ امریکہ کی تیرہ کالونیوں کا یورپ سے فاصلہ پانچ ہزار کلومیٹر تھا جبکہ برطانیہ سے آسٹریلیا پہنچنے کیلئے انیس ہزار کلومیٹر کا سفر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عام غلط فہمی ہے کہ برطانیہ کے کیپٹن کک نے اس کو 1770 میں “دریافت” کیا تھا۔ اگر دریافت کے لفظ کو نظرانداز کر دیں تو بھی  1606 میں ڈچ جہاز ڈفکن کا عملہ شمالی آسٹریلیا پر اترا تھا۔ اس کے کپتان نے یہاں زیادہ عرصہ قیام نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد بھی کئی یورپی مہم جو یہاں پہنچے لیکن کسی نے اس زمین کے اندر کی کھوج کی کوشش نہیں کی۔
کک مشرقی ساحل پر پہنچنے والے پہلے یورپی تھے۔ یہ بوٹنی بے پہنچے تھے جو آج سڈنی میں ہے اور یہاں سات روز رہے۔ یہاں پر ان کا مقامی آبادی سے سامنا ہوا تھا۔ اس عام ملاقات کو تہذیبوں کا تصادم کہا جا سکتا ہے۔ اس سفر کے بارے میں کک کے سائنس افسر جوزف بینکس ڈائری میں لکھتے ہیں۔ “یہاں پر یہ لوگ رہتے ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ خوش اور مست ہیں۔ ان کے لئے کوئی پریشانی نہیں۔ جن چیزوں کو یورپی ضروریات میں شمار کرتے ہیں، وہ بھی نہیں۔  یہ بتاتا ہے کہ انسان کی اصل ضروریات کتنی محدود ہیں”۔
(جاری ہے)