Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (28) ۔ سعودی عرب ۔ تیل

تیل 1932 سے پہلے ایران، بحرین اور عراق سے دریافت ہو چکا تھا۔ تیل کی کمپنیوں کا خیال تھا کہ سعودی عرب میں بھی اس کا ذخیرہ ہو سکتا ہے۔ کمپنیوں...


تیل 1932 سے پہلے ایران، بحرین اور عراق سے دریافت ہو چکا تھا۔ تیل کی کمپنیوں کا خیال تھا کہ سعودی عرب میں بھی اس کا ذخیرہ ہو سکتا ہے۔ کمپنیوں نے سعودی عرب کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بادشاہ کو برطانوی کمپنیوں پر اعتبار نہیں تھا۔ اس کی وجہ کالونیل دور تھا۔ 1933 میں یہ معاہدہ سٹینڈرڈ آئل کمپنی آف کیلے فورنیا (SOCAL) کو چلا گیا۔ سعودیوں نے اندازہ لگایا تھا کہ امریکی ان کے ملک میں مداخلت تو کریں گے لیکن برطانیہ کی طرز پر کالونیل ذہن نہیں رکھیں گے۔
تیل کی تلاش 1935 میں شروع ہوئی۔ یہ 1938 میں دریافت ہوا۔ دمام نمبر سیون نے اسی سال سیاہ سیال نکالنا شروع کر دیا۔ اور پھر سب کچھ بدل گیا۔
تیل کے لئے نئی بندرگاہ بنی۔ پانی کے لئے کھدائیاں کی گئیں۔ ہسپتال اور دفاتر بنے۔ باہر سے مزدور اور ہنرمند آئے۔ نئی سلطنت کے دارالحکومت کی آبادی چالیس ہزار تھی۔ اب یہ اس سے اسی لاکھ کے قریب ہو چکی ہے۔  
پیسہ اور تیل بہے۔ پہلے SOCAL کی طرف۔ لیکن اگلے سالوں میں سعودی عرب نے اس کمپنی کو خریدنا شروع کر دیا۔ یہ آرامکو بن گئی۔
دوسری جنگِ عظیم میں سعودی عرب نے فعال حصہ تو نہیں لیا۔ لیکن اس جنگ نے یہ دکھایا کہ تیل کس قدر اہم ہے۔ نہ صرف صنعت اور ترقی کے لئے بلکہ جنگ کے لئے بھی۔ ایک میکانائزڈ ڈویژن (جس میں ڈھائی سو ٹینک ہوتے ہیں) کو ڈیڑھ سو کلومیٹر کا سفر کرنے کے لئے ایک لاکھ لٹر پٹرول درکار تھا۔ اب امریکی صدر اور سعودی بادشاہ کی ملاقات کا وقت تھا۔
 ان کی ملاقات سویز نہر کے ایک جنگی بحری جہاز میں ہوئی۔ دونوں سربراہان عملی لوگ تھے۔ ایک ہی عمر تھی اور ضعف تھا۔ ابنِ سعود کے لئے چلنے میں مشکل تھی جبکہ روزویلٹ وہیل چئیر پر تھے اور زندگی کے آخری ہفتوں میں تھے۔ ان کا اتفاق ہوا کہ امریکہ کو تیل کی رسائی کی گارنٹی ہو گی۔ سعودی اپنی سرحد تک محدود رہیں گے اور ان کی حفاظت کی گارنٹی امریکہ کی ہو گی۔
ابن سعود کے کئی حریف تھے۔
اس سے صرف بیس سال قبل انہوں نے بنوہاشم کو مکہ اور مدینہ سے نکالا تھا۔ ہاشمی اب عراق اور اردن میں حکمران تھے۔ اور خوف تھا کہ وہ حجاز واپس لینے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ برٹش بھی ہاشمیوں کے ساتھ تھے۔ اس لئے انہیں طاقتور دوست چاہیے تھے۔ اور امریکہ کی دوستی کا مطلب یہ ہوتا کہ برطانیہ ایسے کسی حملے میں ساتھ نہیں دے گا۔
روزویلٹ واپس گئے۔ چند روز بعد سعودی عرب نے جرمنی اور جاپان سے اعلان جنگ کر دیا۔ اور نئے قائم ہونے والے ادارے اقوام متحدہ میں نشست مل گئی۔ سعودی اب عالمی سٹیج کے کھلاڑی تھے۔ تیل انہیں اہم کرتا تھا اور امریکہ انہیں محفوظ۔
ابن سعود کی وفات 1953 میں ہوئی تو ان کی عمر 78 سال تھی۔ انہوں نے اپنے خاندان کی قسمت بالکل بدل دی تھی۔ ان کے بعد ولی عہد سعود اقتدار میں آئے۔ ان کی بے دریغ خرچ کرنے کی عادت تھی۔ اور اپنے اوپر خرچ کرنے کا شوق تھا۔ اس سے تعلیم اور صحت وغیرہ پر خرچ کرنے کو کم ہی بچتا تھا۔ ابنِ سعود نے اپنا محل گارے کی اینٹوں سے بنایا تھا جس سے عام لوگ بناتے تھے۔ نئے حکمران اس سے بہت مختلف طبیعت کے تھے۔
ان سے بے چینی بڑھنے لگی۔ 1964 میں ان کے بھائیوں نے فیصلہ کیا کہ بہت ہو گئی ہے۔ مذہبی علما نے فتوی دیا جس میں “تجویز” کیا گیا کہ جانے کا وقت ہو گیا۔ سعود گریس کو چلے گئے اور ان کے بھائی فیصل شاہی محل کی طرف۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ فیصل کے دور میں تیل سے آمدن سولہ گنا بڑھی۔ اس نے موقع دیا کہ مواصلات اور سڑکوں کا نیٹورک بنا سکیں۔ اور فلاحی سسٹم لایا جا سکے۔ انہوں نے، آخرکار، غلامی بھی قانونا ممنوع کر دی۔
شاہ فیصل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں ٹوکن فوج اردن بھیجی۔ اور جب 1973 کی اگلی جنگ ہوئی تو اس میں عسکری طور پر ملوث ہونے سے دور رہے۔ لیکن عرب لیگ کے ساتھ ملکر اسرائیل کی حمایت کرنے کی وجہ سے امریکہ کو تیل فروخت کرنے پر پابندی لگا دی۔ تیل کے کنویں بند ہو گئے۔ دنیا میں تیل کی قیمت تین گنا ہو گئی۔ صدر نکسن نے خاموشی سے پیغام بھیجا کہ امریکی فوجی سعودی عرب بھی آ سکتے ہیں اور شاہ فیصل نے خاموشی سے امریکی بحریہ کو تیل فراہم کرنا شروع کر دیا۔ اگلے سال یہ پابندی اٹھ گئی اور معمول کی تجارت بحال ہو گئی۔    
شاہ فیصد نے 1965 میں ملک میں ٹیلی ویژن متعارف کروایا۔ اس پر ملک کے مذہبی علما نے برا منایا۔ اگرچہ پہلی ٹرانسمشن تلاوت کی تھی لیکن اس کے خلاف قدامت پرستوں کی طرف سے بڑا احتجاج ہوا۔ شاہ کے ایک بھتیجے نے ٹیلی ویژن سٹوڈیو پر حملے کی قیادت کی اور محافظوں کی فائرنگ سے مارے گئے۔
شاہ فیصل کے اس ماضی نے 1975 میں انہیں آن لیا۔ جو بھتیجا احتجاج میں ہلاک ہوا تھا، اس کے بھائی نے انہیں گولی مار دی۔
(جاری ہے)

 ساتھ لگی مشہور تصویر 29 مئی 1933 میں لی گئی جس میں سعودی عرب کے وزیرِ خزانہ سٹینڈرڈ آئل کمپنی کے ساتھ تیل نکالنے کے معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں۔