Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (27) ۔ سعودی عرب ۔ ابنِ سعود

نجد ایک پسماندہ علاقہ ہوا کرتا تھا جہاں پانی کی قلت تھی۔ اس کے تین طرف صحرا تھا اور ایک طرف پہاڑیوں کے دوسری طرف مکہ تھا۔ یہاں تک آنے کی کو...


نجد ایک پسماندہ علاقہ ہوا کرتا تھا جہاں پانی کی قلت تھی۔ اس کے تین طرف صحرا تھا اور ایک طرف پہاڑیوں کے دوسری طرف مکہ تھا۔ یہاں تک آنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ تجارتی قافلے بھی اس کو نظرانداز کرتے تھے۔
نجد کی قسمت اٹھارہویں صدی میں بدلنا شروع ہوئی جب السعود کے قبیلے کے چند سو اراکین نے الدرعیہ کے نخلستان میں کجھور کے باغات اپنے ہاتھ میں لئے۔ محمد ابن سعود نے اس شہر کو پھلتی پھولتی مارکیٹ بنا دیا۔ اگر آپ ریاض جائیں تو شہر سے پچیس کلومیٹر دور جا کر وہ جگہ دیکھ سکتے ہیں جہاں سعودی ریاست کی پیدائش ہوئی تھی۔ گارے کی دیواروں کے کھنڈر محفوط کئے گئے ہیں جس میں مٹی کے گھر اور چار منزلہ محل دوبارہ تعمیر کئے گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ خاندان بڑھا اور اس کا تعلق وہاب قبیلے سے بن گیا۔ 1744 میں ایک مذہبی عالم محمد ابن وہاب نے ابن سعود کی بیعت کر لی۔ ان کا آئیڈیا تھا مسلمانوں کو اپنے قائد کی غیرمشروط اطاعت کرنی چاہیے۔ اور قائد کو اسلامی اصولوں کے مطابق حکمرانی کرنی چاہیے۔ سودا یہ تھا کہ سیاست سعود کے ہاتھ میں ہو گی جبکہ مذہبی معاملات وہابی ڈومین میں ہوں گے۔ یہ ایسا ہی چلا آ رہا ہے۔
اگرچہ زیادہ تر سعودی سنی ہیں لیکن وہابی نہیں۔ نجد کے شمال میں ان کے بڑے حریف شمر تھے۔ یہ طائی قبیلے کی اولاد سے تھے اور تین قحطانی قبائل کی کنفیڈریشن تھی۔ انیسویں صدی میں ان کی حکومت ریاض سے لے کر شام تک تھی۔ یہ وہابی مکتبہ فکر سے تعلق نہیں رکھتے۔
السعود نے وہابی مکتبہ فکر قبول کر لیا۔ الوہاب کی بیٹی کی شادی ان کے بڑے بیٹے سے ہو گئی اور یہ عرب کو فتح کرنے کے لئے نکل گئے۔ 1765 میں نجد ان کے ہاتھ میں تھا۔ پھر یہ مکہ اور مدینہ تک پھیلے اور پھر اس سے آگے تک۔ یہ پہلی سعودی ریاست تھی جو آج کے سعودی عرب کے بڑے حصے تک پھیل گئی۔ قطر، شمالی عمان، بحرین اور امارات کے علاقے بھی اس میں تھے۔ اسے 1818 میں عثمانیوں نے مصری فوج بھیج کر ختم کر دیا۔ سعود کو شکست ہوئی۔ حجاز ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ یہ واپس نجد دھکیل دئے گئے جہاں کے دارالحکومت پر قبضہ ہو گیا اور اسے منہدم کر دیا گیا۔ شاہ عبداللہ السعود گرفتار ہوئے۔ انہیں استنبول بھیجا گیا جہاں ان کا سر قلم کر دیا گیا۔
پہلی سعودی ریاست تباہ ہو گئی۔ دو سال بعد عثمانیوں نے فوج کا بڑا حصہ واپس بلا لیا۔ سعود خاندان میں بچنے والے ترکی ابن عبداللہ نے خاندان اور سلطنت واپس بنائی۔ 1824 میں ریاض بحال ہوا۔ دوسری سعودی ریاست بھی جو 1891 تک قائم رہی۔ اسے عثمانیوں اور شمر کا مقابلہ رہتا تھا جہاں راشدی حکومت کرتے تھے۔
راشدی شمال میں امارات شمر کے حکمران تھے۔ سعود اور راشدیوں نے عرب کے اندرون کا قبضہ لینے پر دہائیوں تک جنگیں لڑی تھیں۔ سعود کو 1890 میں بری شکست ہوئی جب ریاض ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اور انہیں کویت جانا پڑا۔
جلاوطنی میں غربت اور طیش کی حالت میں وقت گزرا۔ اور یہ تاریخ سے مٹ جاتے۔ لیکن پھر ایک شخص کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔ یہ عبدالعزیز بن عبدالرحمان بن فیصل بن ترکی بن عبداللہ بن محمد السعود تھے۔ انہیں ابنِ سعود سے بھی جانا جاتا ہے۔
وہ پندرہ سال کے تھے جب ان کے خاندان کو فرار ہو کر کویت جانا پڑا تھا۔ ان کا لڑکپن غربت میں گزرا تھا۔ پچیس سال کے تھے جب سعود خاندان کی قیادت ان کے پاس آئی۔ انہوں نے اپنے لئے نجد کے سلطان کا لقب چنا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ نجد پر حکومت راشدیوں کی تھی اور وہ کویت میں تھے۔
ابن سعود نے 1902 میں بیس لوگوں کا دستہ لیا۔ جنوری میں اماوس کی رات کو ریاض کے شہر کی دیوار پھاندی اور راشدی گورنر کو قتل کر دیا۔ اب یہ شہر کے سلطان بن گئے۔ یہ چھوٹی سی آبادی تھی اور شہر ایک مربع کلومیٹر کے رقبے کا تھا۔
لیکن یہ ایک اچھا اڈہ دیتا تھا جہاں سے فتح شروع کی جا سکتی تھی۔ جب تک پہلی جنگ عظیم 1914 میں شروع ہوئی تو ابن سعود کے پاس نجد کا بڑا علاقہ آ چکا تھا۔ ان کی نظر موجودہ اردن، سیریا، حجاز (جس میں مکہ اور مدینہ ہیں) اور خلیج کی ریاستیں لینے پر تھی۔ لیکن ایسا کرنے سے ان کی لڑائی عثمانیوں اور برٹش سے ہو سکتی تھی۔ اس لئے انہوں نے توجہ راشدیوں پر کر لی۔ یہ عثمانیوں کے اتحادی تھے۔ اس لئے سعود ان کے مقابلے میں برٹش کے اتحادی بن گئے۔ انہیں برٹش ہتھیاروں اور پیسے تک رسائی ہو گئی۔ سلطان سعود نے ابن راشد کے خلاف جنگ شروع کی۔ اس کیلئے اخوان پر بھروسہ کیا۔ یہ ایک لاکھ کی تعداد میں خونخوار جنگجو تھے۔
راشدیوں پر حملہ 1920 میں کیا اور دو سال میں انہیں چت کر دیا۔ اس کے بعد اگلے حریف پر توجہ کی۔ یہ بنوہاشم تھے جو حجاز کے حکمران تھے۔ مکہ اور مدینہ 1925 میں فتح ہو گئے۔ ہاشمی عراق اور اردن کی طرف فرار ہو گئے۔ 1927 میں ابن سعود نے برٹش کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔ برٹش نے انہیں نجد اور حجاز کا بادشاہ تسلیم کر لیا۔ اور جواب میں ابن سعود نے یہ مان لیا کہ شمالی حجاز اردن بن جائے گا اور اس پر ان کا دعویٰ نہیں ہو گا۔ اردن بنوہاشم کو دے دیا گیا۔ اور ایسا اب تک چلا آ رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن سعود اب عرب کے آزاد لیڈر تھے۔ 1932 میں انہوں نے اپنا لقب اور ملک کا نام بدل لیا۔ اب وہ اپنے ملک سعودی عرب کے بادشاہ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعودی عرب کو طاقت کے زور پر اکٹھا کیا گیا۔ اور اکٹھا برقرار رکھنے کے لئے ہارنے والے قبیلے کے سردار اور مذہبی راہنما کی بیٹی سے شادی کر لیتے۔ ان کی بیس بیویاں تھیں (بیک وقت چار سے زیادہ نہیں رکھیں) اور سو سے زیادہ بچے تھے۔ اور اس نے وہ فیملی بنائی جو اگلی صدی تک ریاست پر حاوی رہی ہے۔
ان کی بڑی کامیابی یہ تھی کہ ایسے لوگوں کو ایک ریاست میں اکٹھا کر لیا تھا جن کی تاریخی طور پر کوئی مشترک قومی وراثت نہیں رہی تھی۔
(جاری ہے)