Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (26) ۔ سعودی عرب ۔ جغرافیہ

سعودی عرب بیسویں صدی کی تخلیق ہے۔ اس وقت تک مواصلات اور ٹرانسپورٹ آ چکے تھے لیکن اس کے الگ علاقے اپنی خاص انفرادیت رکھتے ہیں۔ اس کا بڑا حصہ...


سعودی عرب بیسویں صدی کی تخلیق ہے۔ اس وقت تک مواصلات اور ٹرانسپورٹ آ چکے تھے لیکن اس کے الگ علاقے اپنی خاص انفرادیت رکھتے ہیں۔ اس کا بڑا حصہ ناقابلِ رہائش رہا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جس میں دریا نہیں۔ اور اس کے اندر دو بڑے صحرا ہیں۔ شمال میں صحرائے نفود جو ریت کی پتلی پٹی سے جنوب میں الربع الخالی سے ملتا ہے۔ یہاں چند خانہ بدوش بدو رہتے ہیں جو اسے الرملہ کہتے ہیں جس کے معنی “ریت” کے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا مسلسل صحرا ہے جو فرانس سے زیادہ رقبے پر پھیلا ہے۔ یہاں پر ریت کے ٹیلے 250 میٹر اونچے ہو جاتے ہیں۔ یہ متحدہ عرب امارات، عمان اور یمن تک جاتا ہے۔ گرمیوں میں سائے میں اس کا درجہ حرارت 50 ڈگری سے اوپر چلا جاتا ہے (اگرچہ سایہ کم ہی دستیاب ہوتا ہے)۔ جبکہ سردیوں کی رات سخت سرد ہو جاتی ہے۔ آج بھی کم لوگ ہی اس میں جانے کی ہمت کرتے ہیں۔ یہ معلوم ہے کہ یہاں کی ریت کے نیچے تیل اور گیس کی بڑی مقدار ہے لیکن اس سے مکمل طور پر فائدہ اٹھانا آسان نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعودی عرب کی سرحد آٹھ ممالک سے ملتی ہے۔ شمال میں اردن، عراق اور کویت۔ مشرقی ساحل جنوب میں بحرین، قطر اور متحدہ عرب امارات سے ملتا ہے۔ جنوب میں عمان اور یمن ہیں۔ ربع الخالی جنوب کی طرف کے علاقوں سے دفاعی بفر کا کام بھی کرتا ہے اور جنوبی ہمسائیوں سے تجارت بھی مشکل کرتا ہے۔ اس کو پار کرنے کا پہلا دستاویزی ریکارڈ  دسمبر 1931 میں برطانوی مہم جو برٹرام تھامس کا ہے جن کے ہمراہ چند بدو قبائلی تھی۔ جنہوں نے عمان سے قطر کا 1300 کلومیٹر کا سفر چند ہفتوں میں کیا تھا۔ 2018 میں صحرا میں سڑک بن جانے سے یہ پہلے سے آسان ہو گیا ہے۔ یہ سڑک عمان کو ریاض سے ملاتی ہے۔
موسم اور قدیم تجارتی راستوں کو جغرافیے نے شکل دی ہے اور اس نے آبادی کے مراکز کو۔ سعودی عرب میں تمام اونچی زمین مغربی نصف میں ہے۔ بحیرہ احمر کے ساتھ ساحلی میدان پتلے ہیں اور سمندر کے ساتھ ساتھ پہاڑیوں کے سلسلے ہیں۔ جدہ ہموار زمین پر ہے۔ جبکہ اس سے ساٹھ کلومیٹر اندر جائیں تو مکہ کی بلندی 277 میٹر ہے جبکہ اس کے پیچھے کی کچھ پہاڑیاں 1879 میٹر تک بلند ہیں۔ پہاڑیوں کے درمیان میں جو گیپ ہے، یہ مدینہ کی طرف جاتا ہے۔ قدیم تجارتی قافلے ربع الخالی سے نہیں گزر سکتے تھے۔ افریقہ، بحیرہ احمر، فارس اور انڈیا کے درمیان ہونے والی تجارت ان تین شہروں سے گزرتی تھی۔
جنوب میں ملک کے سب سے اونچے پہاڑ ہیں جو یمن کی سرحد کے قریب ہیں۔ یہاں کا بہتر موسم آبادیوں کے لئے پرکشش ہے۔ اور اس وجہ سے سعودیوں کی بڑی تعداد مغربی حصے میں رہتی ہے۔ مکہ، مدینہ اور جدہ کے قریب کے علاقے۔ جبکہ یمن کی طرف کی پہاڑی سرحد سب سے زیادہ آباد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعودی عرب میں سنی اکثریت ہے جبکہ شیعہ بھی کم نہیں۔ زیادہ تر مشرقی صوبے میں رہائش پذیر ہیں اور بحارنہ قبیلے سے ہیں۔ اس علاقے میں بیرونی طاقتیں زیادہ اثرپذیر ہو سکتی ہیں اور یہاں پر تیل اور گیس کی سینکڑوں پائپ لائن گزرتی ہیں۔ یہ صوبہ بحرین سے پچیس کلومیٹر کی کازوے سے منسلک ہے جو 1986 میں تعمیر ہوئی تھی۔ بحرین میں شیعہ اکثریت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک کے مرکز میں ریاض اور نجد کا علاقہ ہے۔ اگرچہ ریاض ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اور سیاسی مرکز ہے لیکن ملک کی باقی آبادی سے دور ہے۔
(جاری ہے)