Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (25) ۔ سعودی عرب ۔ سعودی عرب

  سن 1740 میں نجد کا علاقہ ایک مقامی امیر محمد بن سعود کے پاس تھا۔ 1930 میں ان کی اولاد میں سے ایک نے اس علاقے کو بہت پھیلا لیا تھا اور اس ک...


  سن 1740 میں نجد کا علاقہ ایک مقامی امیر محمد بن سعود کے پاس تھا۔ 1930 میں ان کی اولاد میں سے ایک نے اس علاقے کو بہت پھیلا لیا تھا اور اس کا نام سعودی عرب رکھ دیا تھا۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کا نام بتاتا ہے کہ یہ کسی خاندان کی ملکیت ہے۔
ریاست کی شناخت ایک خاندان سے کرنے میں  ایک مسئلہ ہے۔ اگر ریاست صرف نجد کی حد تک ہوتی تو پھر بھی ٹھیک تھا لیکن باقی ملک میں؟ اس ملک کی آبادی کے بڑے حصے کو سعود خاندان کے کنٹرول میں آئے ہوئے ایک صدی بھی نہیں ہوئی۔ اگر کوئی بیسویں صدی کے آغاز پر امارات شمر کو یہ بتاتا کہ یہ سعود کی سلطنت کا ایک صوبہ بن جائیں گے تو شاید اپنے سر کو تلوار کے غلط سرے پر پاتا۔ ایسا ہی مشرق میں خلیج کے کنارے بسنے والی شیعہ آبادی میں ہوتا جن سے صدیوں تک اس خاندان کی لڑائی رہی تھی۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس جدید سلطنت کو اکٹھا رکھنے میں کوئی خاص مشکل ہے لیکن یہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ سطح کے نیچے تناؤ کہاں پر ہے۔ اور مرکز میں حکمران خاندان کی مضبوط حکومت سلطنت کے کناروں کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک صدی قبل اس کی آبادی بیس لاکھ تھی جس میں اکثریت خانہ بدوش تھی۔ اب ساڑھے تین کروڑ ہے اور زیادہ تر شہروں میں ہے۔ جزیرہ نمائے عرب کے بڑے حصے پر پھیلا ہوا ہے اور زیادہ تر صحرا ہے۔ ملک میں ریت اور تیل کے سوا زیادہ کچھ نہیں۔ اور یہ تیل ہے جس نے اسے بیسویں صدی میں دنیا کا اہم کھلاڑی بنا دیا تھا۔ تیل کی پیاسی دنیا میں اس کا تیل اس کے بین الاقوامی تعلقات کے لئے بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔  تاہم، آج کے دور کے سب سے مشہور سعودی نہ ہی کوئی بادشاہ رہے ہیں، نہ ہی کوئی تیل سے امیر ہونے والے ارب پتی۔ بلکہ یہ ایبٹ آباد سے ملنے والے جنگجو تھے۔ اور سعودی عرب کا یہ پہلو اس کے لئے مسئلہ رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعودی عرب کو مستقبل کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر دنیا کا انحصار تیل سے کم ہوتا ہے تو کیا ہو گا۔ صحرا میں اس کے علاوہ اور کیا ہو گا۔ اس کو جدید ہونا ہے۔ یہ اس کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ آسان نہیں ہو گا۔ اس میں کامیابی یا ناکامی کا اثر صرف اس ملک پر نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ پر اور اس سے آگے بھی ہو گا۔
(جاری ہے)