Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (20) ۔ ایران ۔ بادشاہت سے انقلاب تک

ملک اپنے گھٹنوں پر تھا۔ صدیوں کی بدانتظامی کی وجہ سے شکستہ تھا اور جب رضا شاہ پہلوی قزاک بریگیڈ کے ہمراہ لئے تہران پہنچے اور ماضی کی طاقت بح...


ملک اپنے گھٹنوں پر تھا۔ صدیوں کی بدانتظامی کی وجہ سے شکستہ تھا اور جب رضا شاہ پہلوی قزاک بریگیڈ کے ہمراہ لئے تہران پہنچے اور ماضی کی طاقت بحال کرنے کی باتیں ہوئیں تو یہ لوگوں کو بھا گئیں۔ انہوں نے 1935 میں ملک کا نام ایران رکھ دیا۔ اور ملک کو بیسویں صدی میں لانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر پروگرام شروع کئے۔ مثلا، ٹرین کی پٹری بچھائی گئی جو بڑے شہروں کو ملاتی ہے۔  لیکن رضا شاہ پہلوی نے اینگلو پرشین آئل کمپنی کا کنٹرول نہیں سنبھالا۔ یہ برٹش کے پاس تھا اور ان کی ملک کے معاملات میں بہت مداخلت بھی تھی۔ آبادان کے مقام پر برٹش دنیا کی سب سے بڑی ریفائنری بنا چکے تھے۔ یہاں سے برطانوی سلطنت کو سستا تیل بہتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری جنگ عظیم میں ایران نے ایک بار پھر غیرجانبدار رہنے کی کوشش کی اور ایک بار پھر عالمی طاقتوں کا نشانہ بن گیا۔ برٹش اور سوویت نے ایران پر حملہ کر دیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ شاہ جرمنوں کے حق میں ہیں۔ شاہ کو معزول کیا گیا۔ روس تک سپلائی لائن تعمیر کی گئی۔ شاہ نے ریلوے لائن بچھائی تھی، وہ اس میں کام آئی۔
شاہ کی جگہ پر ان کے اکیس سالہ بیٹے محمد رضا شاہ پہلوی کو اقتدار میں بٹھا دیا گیا۔ 1946 میں بیرونی افواج نکل گئیں۔ اور نوجوان بادشاہ نے معاشی اصلاحات شروع کر دی۔ خارجی امور میں انہوں نے برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ اتحاد کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا بدل رہی تھی۔ کالونیل دور کے خاتمے کی ہوا چل پڑی تھی اور یہ اس کے طوفان میں تبدیل ہونے کی وجہ اینگلو ایرانی آئل کمپنی تھی۔ اس کو قومیا لینے کا شور اٹھ گیا۔ 1951 میں محمد مصدق وزیراعظم بنے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ ایرانی تیل کے پیسے صرف ایران میں رہیں گے اور اس پر قانو منظور کروا لیا۔
ردعمل فوی آیا۔ برطانوی بینکوں میں ایرانی اثاثے ضبط کر لئے گئے۔ ایران تک جانے والے سامان کو روک لیا گیا۔ آبادان ریفائنری پر ماہرین کو واپس بلا لیا گیا۔ لیکن ایران پیچھے نہیں ہٹا۔ 1953 میں امریکہ اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں نے فوجی بغاوت کے لئے شہہ دی۔ ملک میں اندرونی سیاسی بحران کے وقت محمد مصدق نے پارلیمنٹ توڑ دی۔ ان کا ارادہ بادشاہ کے اختیارات ختم کرنے اور خود فرمان کے ذریعے حکومت کرنے کا تھا۔ اس بحران نے امریکہ اور برطانیہ کو موقع دے دیا۔ امریکہ کا زیادہ خوف یہ تھا کہ ایران میں کمیونسٹ نہ آ جائیں۔ یہ ایران کی حزب تودہ تھی جو سوویت کیمپ میں تھی اور اور مصدق کی حمایت میں تھی۔ جبکہ برطانیہ کی ترجیحات میں ایرانی تیل سے آنے والا منافع تھا۔
 چرچل نے امریکہ کو قائل کیا اور دونوں نے ملکر ایران میں خفیہ آپریشن سے حکومت کا تخت الٹا دیا۔ جنرل فضل اللہ زاہدی نے اقتدار سنبھال لیا۔ شاہ اٹلی فرار ہو چکے تھے۔ انہیں واپس بلا لیا گیا۔ اور سب ٹھیک ہو گیا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ سب ٹھیک نہیں ہوا تھا۔
ایران کی نوخیز جمہوریت کو مسل دیا گیا تھا۔ شاہ کا طرز حکومت جابرانہ ہوتا گیا۔ انہیں جلد ہی ہر طرف سے مخالفت کا سامنا تھا۔ مذہبی حلقوں کو ان کی سماجی اصلاحات پر طیش تھا۔ کمیونسٹ ان کی معاشی پالیسیوں سے نالاں تھے۔ لبرل دانشوروں کی طرف سے جمہوریت کا مطالبہ تھا۔ قوم پرستوں کو ذلت محسوس ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ پس منظر تھا جو 1979 کے انقلاب تک لایا تھا۔ آج کی ایرانی حکومت اس انقلاب کو مذہبی انقلاب کہتی ہے لیکن ایسا نہیں تھا۔ ایرانی بادشاہت کے خلاف مظاہروں میں سیکولر گروہ بھی تھے۔ مزدور یونین بھی تھیں۔ کمیونسٹ بھی تھے۔ اور مذہبی اسٹیبلشمنٹ بھی۔
(جاری ہے)