Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (18) ۔ ایران ۔ لوگ

ایران کا بڑا علاقہ بیابان اور مشکل زمین ہے اور یہ وجہ ہے کہ زیادہ تر ایرانی پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں۔ اور قدرتی جدائی کی وجہ سے آباد علاقو...


ایران کا بڑا علاقہ بیابان اور مشکل زمین ہے اور یہ وجہ ہے کہ زیادہ تر ایرانی پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں۔ اور قدرتی جدائی کی وجہ سے آباد علاقوں میں بننے والے کلچر بھی جدا رہے ہیں۔ مختلف گروہ اپنی شناخت برقرار رکھتے ہیں اور جدید ریاست کو اندرونی اتحاد میں دشواری ہوئی ہے۔ ایران میں آبادی کے مراکز آپس میں فاصلے پر ہیں اور ان کے آپس میں روابط بہت اچھے نہیں۔ اس وقت بھی ملک میں نصف سڑکیں کچی ہیں۔ اور یہ وہ وجہ ہے کہ اگرچہ سب ایرانی ہیں لیکن ملک کے اندر کئی مضبوط قومیتیں پائی جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساٹھ فیصد ایرانیوں کی پہلی زبان فارسی ہے اور یہ سرکاری زبان بھی ہے۔ کرد، بلوچ، ترک، آذری اور آرمینیائی باشندے اپنی زبانیں رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ عرب، سرکیشیائی اور نیم خانہ بدوش لور قبائل بھی بستے ہیں۔
اس تنوع کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کے حکمرانوں کی کوشش مضبوط مرکزی نظام کی رہی ہے اور حکومت زیادہ تر جابرانہ طرز کی رہی ہے تا کہ عوام کو کنٹرول کیا جا سکے، علیحدگی کی کوئی تحریک نہ ابھر سکے اور کوئی اندرونی گروہ بیرونی طاقت کے ساتھ کسی بھی نوعیت کی سازباز نہ کرے۔ یہ آج بھی ہے اور اس سے پہلے بھی ایسا ہی رہا تھا۔
اقلیتی گروہوں میں کرد کلچر زیادہ مضبوط اور منفرد ہے۔ اندازہ ہے کہ ان کی تعداد دس فیصد (پچاسی لاکھ) ہے یہ آذر کے بعد دوسرا بڑا اقلیتی گروہ ہیں۔ زیادہ تر کرد عراق اور ترکی کی سرحد پر کوہ زاگروس میں بستے ہیں۔ عراق اور ترکی میں سرحد پار بھی کرد ہیں۔ یہ زیادہ تر سنی مسلمان ہیں جبکہ ملک میں شیعہ اکثریت ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے وقت میں کرد علاقے نے اپنی علیحدہ ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا تھا لیکن یہ ایک سال سے زیادہ برقرار نہیں رہ سکی تھی۔ مرکزی حکومت نے ملک کو سنبھال لیا تھا۔ اس علاقے میں ایک اور بغاوت 1979 کے انقلاب کے بعد ہوئی جسے دبانے میں ایرانی فوج کو تین سال لگے۔
آذری آبادی کا سولہ فیصد ہیں جو کہ آذربائیجان اور آرمینیا کی سرحد کے قریب رہتے ہیں۔ ترک ترکیہ کی سرحد کے قریب۔ عرب (جن کی تعداد سولہ لاکھ ہے) عراق میں شط العرب کے قریب۔ اس کے علاوہ کچھ تعداد میں جارجین بھی ہیں۔
زیادہ تر ایرانی پہاڑی ڈھلوانوں کے شہری علاقوں میں آباد ہیں اور بڑی تعداد ملک کے ایک تہائی علاقے میں رہتی ہے۔ تہران کوہِ البرز کے دامن میں ہے۔ اور ایران کے بہت سے شہر اسی طرح بنے ہیں۔ پانی کی قلت کے باعث پہاڑوں کی ترائی میں شہر اپنی پانی کی سپلائی پہاڑ کی ڈھلوان سے لیتے ہیں جہاں سے چھوٹی نہر سے شہری علاقے تک پانی لایا جاتا ہے۔
پانی کی قلت ایک اور عامل ہے جو ایران کی ترقی میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ تقریبا دس فیصد زمین پر کاشتکاری ہوتی ہے اور اس میں سے صرف ایک تہائی میں آبپاشی کا نظام ہے۔ تین بڑے دریا ہیں۔ صرف دریائے کارون کو ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تہران، بندر عباس، شیراز، آبادان اور اصفہان میں ائیرپورٹ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایران کے پاس دنیا میں دوسرے سب سے بڑے گیس کے ذخائر ہیں اور چوتھے سب سے بڑے تیل کے ذخائر ہیں۔ اس کو بہت امیر ملک ہونا چاہیے تھا۔ لیکن عراق کے ساتھ 1980 سے 1988 تک جاری رہنے والی جنگ نے ریفائننگ کی صلاحیت اور تیل کا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا تھا۔ ملک کی فوسل فیول کی صنعت اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے بدنام ہے۔ عالمی اقتصادی پابندیاں اس کے لئے جدید آلات تک رسائی ختم کر دیتی ہے۔ باہر سے آنے والے ماہرین جو ایران میں کام کرنے کو تیار ہوں، بہت کم ہیں۔ اور ہر کوئی ایران سے تجارت نہیں کرتا۔
ایران کے تیل کے بڑے ذخائر ان علاقوں میں ہیں جو عراق، سعودی عرب اور کویت کے قریب ہیں۔ گیس کے ذخائر خلیج فارس کے قریب ہیں۔ ایران کے لئے سمندر میں جانے ک راستہ تنگ ہے۔ آبنائے ہرمز صرف 34 کلومیٹر چوڑی ہے۔ ایران کے لئے یہ دو دھاری تلوار ہے۔ ایک وجہ کہ یہ بحری طاقت نہیں بن سکا یہ ہے کہ سمندروں تک اس کی رسائی محدود ہے۔ لیکن اس راہداری کے تنگ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو بند کرنے کی صلاحیت کا خوف ایران کو دنیا میں اہم کر دیتا ہے۔ دنیا کا بیس فیصد ایندھن یہاں سے گزرتا ہے اور اگر یہ بند ہو جائے تو ساری دنیا تکلیف میں ہو گی اور اس کا مطلب جنگ ہو گا۔ ایران ایسا کرے گا تو غالبا کبھی نہیں کیونکہ تکلیف خود اس کو بھی ہو گی۔ لیکن اس کے پاس کھیلنے کو یہ کارڈ ہے اور ایرانی حکومت اس ترپ کے پتے کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔
ایرانی فوج مشقیں کرتی رہتی ہے کہ بڑے بحری جہازوں کو درجنوں تیزرفتار حملہ آور کشتیوں کی مدد سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ اور یہ طریقہ اس کے لئے کسی بڑے حملے کی صورت میں آبنائے کو روک دینا ممکن بنائے گا۔
خلیج کی ریاستوں نے اس سے بچنے کے لئے پائپ لائن بنانا شروع کی ہیں جو کہ تیل اور گیس کو براہ راست بحیرہ احمر لے جائیں اور یہاں سے نہ گزرنا پڑے۔ جبکہ ایران اس کا مقابلہ کرنے کے لئے میزائل سسٹم تیار کر رہا ہے۔
(جاری ہے)