Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کی طاقت (17) ۔ ایران ۔ جغرافیہ

ایران کے دو جغرافیائی فیچر نمایاں ہیں۔ اس کے پہاڑ جو کہ اس کی سرحد پر ہالہ بناتے ہیں اور نمکین صحرا جو کہ اس کے اندرون میں ہیں۔ پہاڑ ایران ک...


ایران کے دو جغرافیائی فیچر نمایاں ہیں۔ اس کے پہاڑ جو کہ اس کی سرحد پر ہالہ بناتے ہیں اور نمکین صحرا جو کہ اس کے اندرون میں ہیں۔ پہاڑ ایران کو قلعہ بنا دیتے ہیں۔ ان سے گزرنا مشکل ہے اور یہ دو ویران بنجر زمینوں کو گھیرتے ہیں۔ یہ دشت کویر اور دشت لوط ہیں۔
دشت کویر ۸۰۰ کلومیٹر لمبا اور ۳۲۰ کلومیٹر چوڑا ہے۔اس کی کئی جگہوں پر نمک کی تہہ کے نیچے گہری دلدل ہے۔ اس صحرا میں دلدل میں پھنس کر مر جانا بے وقوفی کہلائے گا۔ اور دشت لوط کا مطلب ہی ویران صحرا ہے۔
اس وجہ سے اس علاقے پر حملہ کرنا بہت عقلمندی نہیں۔ یہ ملک ہمیشہ خبروں میں ہوتا ہے اور مشرق وسطی کی اہم طاقت ہے۔  ایرانی تاریخ ایسی حملہ آور طاقتوں سے بھری پڑی ہے جن کی لاشیں اس کے پہاڑوں پر بکھری پڑی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ میں اس کا نام فارس یا پرشیا رہا ہے۔ اسکو ایران کا نام 1935 میں دیا گیا۔ ملک کی نسلی اقلیتوں میں چالیس فیصد فارسی نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے جغرافیے کو ہم کوہِ زاگروس سے شروع کرتے ہیں اور کلاک وائز چلتے ہیں۔ یہ ڈیڑھ ہزار کلومیٹر لمبے پہاڑ ہیں جو کہ آبنائے ہرمز سے شروع ہوتے ہیں۔ یہ پہاڑ شمال میں ایران سے گزرتے ہیں جہاں یہ خلیج کے پار قطر اور سعودی عرب کا سامنا کرتا ہے۔ اس سے شمال میں شط العرب کی آبی گزرگاہ ہے جو عراق اور ترکی کی سرحد ہے۔ اس سے آگے چلیں تو شمال مشرق میں آرمینیا کی سرحد ہے۔ یہ پہاڑ دیوار کا کام کرتے ہیں جو مغرب کی سرحد کو محفوظ رکھتے ہیں۔ درمیان میں صرف شط العرب کا “دروازہ” ہے، جہاں عراق کی سرحد ہے۔ یہاں دریائے دجلہ اور فرات ملتے ہیں۔ ایرانی لیڈروں کیلئے یہ اس کا مین گیٹ رہا ہے۔ یہاں پر ایران کی طرف کا علاقہ دلدلی زمین ہے اور دفاعی لحاظ سے فائدہ دیتی ہے۔
جہاں پر زاگروس ختم ہوتے ہیں، وہاں سے البرز پہاڑ شروع ہو جاتے ہیں۔ ایک بار پھر اگر گھڑی وار چلا جائے تو البرز آرمینیا کی سرحد سے جنوب کو موڑ کاٹے ہیں۔ یہاں پر بحیرہ کیسپین کے ساتھ چلتے ہیں جس کے ساتھ 650 کلومیٹر ساحل ہے اور 3000 میٹر بلند یہ پہاڑ اس سے کسی بھی مقام سو کلومیٹر سے زیادہ دور نہیں رہتے۔ مغرب کی طرف ہی شمال کی طرف سے حملہ آور کو بھی پہاڑ کی اس دیوار کا سامنا ہے۔ یہ پہاڑ پھر خم کھاتے ہیں اور ترکمانستان اور افغانستان کی سرحد کے ساتھ چلتے ہیں۔ ان کی بلندی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے اور یہ وسطی مکران رینج کے ساتھ ملتے ہیں اور یہ ہمیں واپس آبنائے ہرمز کی طرف لے آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی نے ایران پر حملہ کر کے قبضہ کرنا ہے تو دلدل پار کر کے، پہاڑوں کے اوپر سے صحرا میں سے ہوتے ہوئے آئیں یا پھر سمندر کی طرف سے لینڈ کریں اور پھر آگے بڑھیں۔
مجموعی طور پر اس کی زمین کسی بھی جارح کے لئے رکاوٹ ہے۔ اور اسے توڑنے کے لئے بھاری قیمت دینا پڑتی ہے۔ لیکن اس نے جارح قوتوں کو یہاں حملہ آور ہونے سے نہیں روکا۔ سکندراعظم نے کچھ علاقہ فتح کیا تھا لیکن جلد ہی فارس نے قبضہ واپس لے لیا۔ تیرہویں صدی میں منگول اور تیمور لنگ وسطی ایشیائی میدانوں سے آئے تھے۔ اور لاکھوں لوگ موت کے گھاٹ اتارے تھے۔ لیکن یہاں اتنا وقت نہیں گزارا کہ فارسی کلچر پر اثر چھوڑ سکیں۔ سولہویں صدی میں عثمانی چند بار کوہ زاگروس پار کر کے آئے لیکن زیادہ آگے نہیں آ سکے۔ روسیوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ جبکہ برٹش کی حکمت عملی یہ رہی کہ یہاں کے اقلیتی گروپ سے تعاون خریدا جائے۔
دوسری طرف، یہی جغرافیہ ایران کی اپنی طاقت پر بھی قدغن عائد کرتا ہے۔ فارس کی سلطنت ان پہاڑوں سے اتر کر کئی بار باہر کی طرف پھیلی ہے لیکن اپنی تاریخ کا بڑا حصہ اسی علاقے تک محدود رہی ہے۔ اس کے پڑوس میں یونان، رومی، بازنطینی، عثمانی اور امریکی سپرپاورز کی آمد ہوتی رہی ہے اور یہ سب اپنے طریقے سے اس علاقے میں اندرونی مداخلت کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

(جاری ہے)