Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (72) ۔ ذہن کی قید

خلا کو “آخری سرحد” کہا جاتا ہے جو ہمارے تصور کو چھیڑتی رہی ہے۔ بیسویں صدی میں انسانیت نے اس خواب کو پا لیا اور زمین سے باہر نکلنے میں کامیا...


خلا کو “آخری سرحد” کہا جاتا ہے جو ہمارے تصور کو چھیڑتی رہی ہے۔ بیسویں صدی میں انسانیت نے اس خواب کو پا لیا اور زمین سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہماری بے چین روح نے ہمیں اس “مدہم نیلے نقطے” کی قید سے نکال دیا۔
لیکن ہمیں واپس زمین پر آنا ہے۔ ہم نے اس جغرافیے کو فتح نہیں کیا۔ یہ ہمارا جیل خانہ ہے۔ یہ اس بات کو طے کرتا ہے کہ ایک ریاست کیا ہے اور کیا کر سکتی ہے۔ ہمارے لیڈر اس کو بدلنے کی جدوجہد کرتے رہے ہیں۔
اس کی سب سے واضح مثال روس ہے۔ میدان کے چھوٹے علاقے سے پھیلنا شروع ہوا۔ سمندروں اور پہاڑوں کے درمیان کے علاقے کو کنٹرول کر لیا۔ ان کا کمزور پوائنٹ شمالی یورپی میدان رہا۔ روسی لیڈر اگر عظیم قوم بنانا چاہتا ہے (جس میں یہ کامیاب رہے ہیں) تو ان کے پاس ان کمزور جگہ پر کرنے کے لئے زیادہ آپشن نہیں ہیں۔ یہاں پر صدیوں سے جنگ یا جنگی تیاریاں رہی ہیں، اسی طرح یورپ ایک بڑا تجارتی علاقہ ہے اور ایسا کئے جانا یہاں کے لیڈروں کا شعوری فیصلہ نہیں تھا۔ موافق لمبے دریاؤں نے اسے ممکن اور کسی حد تک ناگزیر بنایا تھا کہ صدیوں کی معاشرت اس سمت جائے گی۔
اکیسویں صدی آگے بڑھ رہی ہے۔ جن جغرافیائی عوامل نے ہماری تاریخ کو شکل دی ہے، وہ ابھی بھی ہمارے مستقبل کو شکل دے رہے ہیں۔ روس اپنے مغرب سے دفاع کے بارے میں گھبراہٹ رکھتا ہے۔ انڈیا اور چین کے درمیان ہمالیہ کی رکاوٹ ہے۔ اگر کبھی ان کی جنگ ہوتی ہے تو ان کو ایسی ٹیکنالوجی ڈویلپ کرنا ہو گی جو کہ بڑی فوج کو اس سے پار لے جا سکے یا پھر یہ محدود جھڑپیں ہی رہیں گی۔ فلوریڈا خلیج میکسیکو میں داخلے اور اخراج کا نگران رہے گا۔ اگر بالفرض کبھی ناممکن ممکن ہو جائے اور یہ حصہ امریکہ سے الگ ہو کر میکسیکو اور کیوبا سے اتحاد بنا لے، تب بھی جو چیز بدلے گی، وہ صرف یہ کہ خلیج کا کنٹرول کس کے پاس ہو گا۔ اس جگہ کی اپنی اہمیت نہیں بدلے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظاہر ہے کہ ایسا نہیں کہ جغرافیہ دنیا کی تاریخ کو مکمل طور پر طے کر دیتا ہے۔ عظیم خیالات اور عظیم لیڈر بھی تاریخ کی کشمکش کا حصہ ہیں۔ لیکن یہ سب جغرافیے کی حدود کے اندر آپریٹ کرتا ہے۔ بنگلہ دیش کے لیڈر یہ تمنا کر سکتے ہیں کہ خلیج بنگال کے پانیوں کو روکا جا سکے لیکن یہ جانتے ہیں کہ اسی فیصد ملک سیلابی میدانوں پر ہے۔ اسے ہلایا نہیں جا سکتا۔
شاہ کنوٹ گیارہویں صدی میں برطانیہ، ڈنمارک اور سویڈن کے بادشاہ تھے۔ اپنے عروج پر انہوں نے ساحل سمندر پر اپنا تخت رکھا۔ اٹھتی ہوئی لہروں کو حکم دیا “تم رعایا ہو اور یہ زمین میری ہے۔ کوئی میری حکم عدولی نہیں کر سکتا۔ میں حکم دیتا ہوں کہ میری زمین سے دور رہو۔ اپنے آقا کے کپڑے گیلے نہ کرو”۔ لیکن سمندر کا مدوجزر تو ویسا ہی ہوتا رہا اور اس نے بادشاہ کے پیر اور پنڈلیاں بھکو دیں۔ بادشاہ نے تخت اٹھایا اور کہا، “دنیا کو بتا دو کہ بادشاہ کی طاقت کھوکھلی اور بے کار ہے۔ کوئی ایسا بادشاہ نہیں، سوائے خدا کے، جو زمین، آسمان اور سمندروں کو مسخر کر سکے۔ یہ ابدی قوانین کے تابع ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنگلہ دیش بھی صرف یہی کر سکتا ہے کہ فطری حقائق کے ردعمل میں اپنی تیاری کرے۔ سیلاب سے روک تھام کے ڈیفنس بنائے۔ اور امید رکھے کہ گلوبل وارمنگ کے ماڈلوں میں مبالغہ آرائی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسمیاتی تبدیلیوں جیسے نئے جغرافیائی حقائق نئے مواقع اور نئے چیلنج لاتے ہیں۔ ان کی وجہ سے لوگوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہو کتی ہے۔ اگر واقعی میں مالدیپ اور دوسرے جزائر کا مقدر سمندر میں غرق ہو جانا ہے تو اس سے صرف یہاں کے لوگوں کو ہی فرق نہیں پڑتا۔ ان کو بھی پڑے گا جہاں یہ لوگ جائیں گے۔ اگر بنگلہ دیش کے سیلاب زیادہ تباہ کن ہو جاتے ہیں تو اس ملک اور اس کے سترہ کروڑ عوام کا مستقل مخدوش ہو گا۔ اور ملک تباہ ہو سکتا ہے۔ اگر افریقہ میں ساحل کے علاقے میں صحرا کا پھیلاؤ جاری رہتا ہے تو سوڈان کی دارفر جیسے جنگیں زیادہ ہوں گی اور زیادہ خوفناک ہوں گی۔  (اس جنگ کی جزوی وجہ یہ ہے کہ شمال کے خانہ بدوشوں کی زمین صحرا نگل رہا ہے اور اس نے علاقے کے لوگوں کو جنوب کے علاقے کی طرف دھکیل دیا ہے جو کہ فر کا علاقہ ہے)۔
پانی پر جنگیں ایک اور ممکنہ مسئلہ ہے۔ آنے والی دہائیوں میں مستحکم جمہوری ممالک کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔ ترکی کے پہاڑوں سے دریائے مرات دریائے فرات میں گرتا ہے۔ اگر یہاں کا بہاؤ کم ہو جائے تو ترکیہ کو خود کو بچانے کے لئے ڈیم بنانا پڑیں گے جو کہ اس کی سیریا اور عراق کے ساتھ جنگ کی وجہ ہو سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم خلا میں ہزاروں سیٹلائیٹ بھیج چکے ہیں، سینکڑوں خلاباز بھیج چکے ہیں۔ کئی بار چاند پر جا چکے ہیں۔ اور ایسا سمجھتے ہیں کہ خلائی مہم جوئی پرامن اور تعاون سے ہونے والا مستقبل ہو گا۔ لیکن یہاں پر جنگی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور یہ زمینی جنگ سے زیادہ ہولناک ہو سکتی ہے۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ستاروں کو دیکھتے ہیں۔ ان پر کمند ڈالنے کے خواب رکھتے ہیں۔ لیکن آگے کے چیلنج سنجیدہ ہیں۔  ہم نے گریویٹی کی ہتھکڑیاں توڑی ہیں۔ لیکن اپنے ذہن کی قید کو نہیں۔ وسائل کی دوڑ کی جبلت، “دوسرے” پر بے اعتباری ۔۔۔۔ ہماری قید جغرافیے سے زیادہ ہمارے ذہنوں کی ہے۔ اور ان بندشوں کو توڑنا ہمارے لئے ہمیشہ سب سے زیادہ دشوار رہا ہے۔
(جاری ہے)