Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (71) ۔ آرکٹک ۔ تنازعات

اس وقت بحیرہ آرکٹک پر کم از کم 9 قانونی تنازعات ہیں۔ اور تمام پیچیدہ ہیں۔ کئی ایسے ہیں جو کہ ممالک کے مابین سنجیدہ تنازعہ بن سکتے ہیں۔ ماسک...


اس وقت بحیرہ آرکٹک پر کم از کم 9 قانونی تنازعات ہیں۔ اور تمام پیچیدہ ہیں۔ کئی ایسے ہیں جو کہ ممالک کے مابین سنجیدہ تنازعہ بن سکتے ہیں۔
ماسکو نے 2007 میں دو آبدوزیں قطب شمالی کی طرف بھیجیں۔ انہوں نے قطب شمالی میں سمندر کی تہہ پر 13980 فٹ نیچے سمندر کی تہہ میں زنگ سے محفوظ titanium کے ڈنڈے پر روس کا جھنڈا نصب کیا جو آج بھی یہاں پر ہو گا۔ اس کے بعد ایک روسی تھنک ٹینک نے تجویز پیش کی کہ بحیرہ آرکٹک کا نام بدل کر بحیرہ روس رکھ دیا جائے کیونکہ یہ روس کا علاقہ ہے۔
اس کے علاوہ روس کا موقف ہے کہ Lomonosov Ridge سائبیریا کے براعظمی شیلف پر آتی ہے تو اس پر روس کا حق ہے۔ یہ دوسرے ممالک کے لئے مسئلہ ہے کیونکہ یہ قطب شمالی تک پھیلی ہوئی ہے۔
روس اور ناروے کا بڑا مسئلہ بیرنٹس کے سمندر میں ہے۔ ناروے کا دعوی Gakkel Ridge پر ہے۔ لیکن روس اسے تسلیم نہیں کرتا۔ ایک تنازعہ سوالبارڈ جزیرے کا ہے جو کہ دنیا میں قطب شمالی کے قریب ترین آباد جگہ ہے۔ یہ نیم خودمختار ہیں لیکن دنیا کے ممالک اور عالمی تنظمیں اسے ناروے کا حصہ تسلیم کرتی ہیں لیکن یہاں پر روسیوں کی آمد بڑھ رہی ہے جو کہ کوئلے کی کان کنی کے لئے آتے ہیں۔ یہ کانیں منافع بخش نہیں۔ لیکن یہ روس کو موقع دیتی ہیں کہ ان جزیروں پر دعوی رکھے۔ اور اگر روس چاہے تو یہ معاملے کو بڑھا سکتا ہے۔ اگر یہاں روسی آبادی اچھی تعداد میں ہو تو جزیرے پر دعوے کا مطلب اس کے قریب کے سمندروں پر دعوٰی بھی ہو گا۔
ناروے کو علم ہے کہ آنے والے وقت کے خدشات کیاں ہیں اور یہ ان کی خارجہ پالیسی پر اب اہم ترجیح ہے۔ ناروے کے لڑاکا طیارے روسی طیاروں کو اپنی سرحد کے قریب آنے پر چیلنج کرتے ہیں۔ ناروے اب عسکری تیاری کر رہا ہے اور آرکٹک بٹالین بنا رہا ہے۔
کینیڈا سرد موسم کی ملٹری صلاحیت تیار کر رہا ہے جس میں پانچ نئے بحری جنگی جہاز بھی ہیں جن میں برف توڑنے کی صلاحیت ہے۔ یہ اضافہ حالیہ برسوں کا ہے۔
ڈنمارک نے اپنی آرکٹک ریسپانس فورس بنا لی ہے۔
جبکہ روس آرکٹک آرمی تیار کر رہا ہے۔ روس نے یہاں پر چھ نئے فوج اڈے بنائے ہیں۔ اس کے علاوہ سرد جنگ کے وقت ختم کئے گئے کچھ اڈے بحال کر رہا ہے۔ تزئین نو کی جا رہی ہے۔ چھ ہزار فوجی مرمانسک کے علاقے میں تعینات کئے گئے ہیں۔ جس میں دو بریگیڈ ہیں جن کے پاس برفانی گاڑیاں اور ہوور کرافٹ ہیں۔
صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ “آرکٹک کے تیل کے ذخائر اکیسویں صدی میں ہمارے سٹریٹجک ریزرو ہیں”۔
روس نے 2014 میں یہاں پر بڑی جنگی مشقیں کیں جن میں 155000 فوجیوں نے شرکت کی۔ اس میں تیاری کی گئی کہ بیرونی طاقت (امریکہ اور جاپان) کے مشترکہ حملے سے کیسے نمٹا جائے۔
روس کے پاس مستقبل کے لئے منصوبے ہیں، ماضی کا انفراسٹرکچر ہے جبکہ جگہ کا فائدہ ہے۔ اور یہ اب سرد جنگ کے زمانے کی آرکٹک پالیسی کو بحال کر رہا ہے۔
امریکہ نے اپنی فوج آئس لینڈ سے نکال لی تھی۔ آئس لینڈ کے وزیر جارنسن نے کہا اسے کوتاہ نظری قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ “فوج کو برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ کسی قوم کی طرف سے دیا جانے والا پیغام ہوتا ہے۔ خلا چھوڑ دینا یہ سگنل دیتا ہے کہ آپ کی علاقے میں قومی ترجیحات نہیں ہیں”۔
اور یہ واضح ہے کہ آرکٹک کے علاقے میں روس کی توجہ زیادہ ہے۔
برف توڑ کر سفر کرنے والے ایک جہاز (ice breaker) کی لاگت ایک ارب ڈالر تک ہو سکتی ہے اور بننے میں دس سال لگ سکتے ہیں۔ روس کے پاس 32 جہازوں کا بیڑہ ہے۔ ان میں سے چھ نیوکلئیر پاور والے ہیں (اور ایسے جہاز دنیا میں کسی اور کے پاس نہیں)۔ 2018 میں اس نے سب سے طاقتور آئس بریکر کا افتتاح کیا تھا جو کہ دس فٹ موٹی برف کاٹ کر اپنے پیچھے ستر ہزار ٹن وزنی تیل کے ٹینکر لے کر جا سکتا ہے۔
اس کے مقابلے میں امریکہ کے پاس صرف ایک بھاری آئس بریکر ہے۔ اور 1960 کی دہائی میں اس کے پاس آٹھ ہوا کرتے تھے۔کینیڈا کے پاس سات ہیں۔ فن لینڈ کے پاس آٹھ، سویڈن کے پاس سات، ڈنمارک کے پاس چار۔ جبکہ چین، جرمنی اور ناروے کے پاس ایک ایسا جہاز ہے۔
امریکہ اور کینیڈا کا آپا کا تنازعہ کینڈین جزائر کے جھرمٹ میں ہے۔ کینیڈا انہیں “اندرونی علاقہ” کہتا ہے جبکہ امریکی دعویٰ ہے کہ یہ بین الاقوامی علاقہ ہے جو کینیڈا کے قانون کے تابع نہیں۔ 1985 میں امریکہ نے اپنا آئس بریکر کینیڈا کی اطلاع کے بغیر بھیج دیا تھا جس سے دونوں ممالک میں کچھ تندوتیز سفارتی تبادلے ہوئے تھے۔ یہ دونوں دوست تو ممالک ہیں لیکن امریکہ کا روس کے ساتھ بیرنگ سمندر اور شمالی بحرالکاہل پر تنازعہ ہے۔ سوویت یونین نے یہاں پر امریکی حکومت کے ساتھ سرحدیں طے کرنے کے لئے معاہدہ کیا تھا لیکن سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد روسی پارلیمان نے اس کی توثیق سے انکار کر دیا۔ یہ اس وقت امریکہ کے پاس ہے لیکن روس اس مسئلے کو واپس لانے کا حق رکھتا ہے۔
علاقوں پر حق کے تنازعات ہونے کے وجہ ایک ہی جیسے خدشات اور لالچ ہیں۔ بحری راستے استعمال کرنے کا حق، قدرتی وسائل لینے کی جستجو اور یہ خوف کہ اگر آپ پیچھے ہٹ جائیں گے تو کوئی اور لے جائے گا۔
برف کا پگھلنا جغرافیہ بدل رہا ہے اور ساتھ ہی صورتحال بھی۔ یہاں کے ممالک ہوں یا توانائی کی بڑی کمپنیاں ۔۔۔ انہیں نے فیصلے لینے ہیں کہ ان تبدیلیوں کے ساتھ کیسے معاملہ کریں گے۔ ماحول کی رکھوالی پر کتنی توجہ دیں گے۔ کئی ماہرین کے مطابق توانائی کی عالمی پیاس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہاں پر “نئی عظیم کھیل” ہو گی۔ تیل کے کنویں، گیس کے پلیٹ فارم نمودار ہوں گے۔ روس نہ صرف نیوکلئیر آئس بریکر رکھتا ہے بلکہ تیرتے ہوئے نیوکلئیر پلانٹ بنانے کا ارادہ بھی جو کہ یہاں کی برف میں بجلی دے سکیں گے۔
لیکن یہ انیسویں صدی کی عظیم کھیل یا افریقہ کی دوڑ جیسی کھیل شاید نہیں ہو گی۔ ماحولیاتی آلودگی، سرحدی تنازعات، سمندری حقوق اور مقامی آبادی سے سلوک کے بارے میں اب عالمی معاہدے اور قوانین ہیں۔
آرکٹک ریاستوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ آسان جگہ نہیں۔ یہاں کا موسم اور جغرافیہ اپنے ساتھ چیلنج لے کر آتا ہے۔ تاریک، پرخطر علاقہ ہے۔ اور یہاں پر دوستوں کے بغیر جانا موت کو دعوت دینا ہو سکتا ہے۔ کامیابی کے لئے تعاون بھی چاہیے۔ مچھلیوں کے ذخائر، سمگلنگ، دہشت گردی، تلاش اور ریسکیو، اور ماحولیاتی حادثات سے اکٹھے ہی نمٹا جا سکے گا۔
لیکن دوسری طرف، انسانی فطرت کا یہ مطلب بھی ہے کہ کوئی بھی معاملہ تنازعہ کھڑا کر سکتا ہے۔ آج سے نصف صدی قبل برطانیہ اور آئس لینڈ کے درمیان “مچھلیوں کے جھگڑے” اس کی مثال ہیں۔   
اور جہاں تجارت ہوتی ہے، وہاں سمگلنگ بھی۔ اس کو پولیس کرنا یہاں پر زیادہ مشکل ہو گا۔
یہاں پر 1960 کی دہائی میں لینن نامی آئس برکر کو سمندر میں حادثہ ہوا تھا۔ تابکار ری ایکٹر کو کاٹ دیا گیا تھا اور کنکریٹ میں بند کر کے سمندر میں تلف کیا گیا تھا۔ جس طرح آرکٹک کھلتا ہے، ایسے حادثات میں اضافہ متوقع ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا ہو سکتا ہے آرکٹک کا علاقہ یہاں کے ممالک کے لئے جنگ کا ایک نیا میدان بن جائے۔ کیونکہ جنگ چھڑ جانے کی وجہ یا تو دوسرے کا خوف ہوتا ہے یا پھر لالچ۔ اور یہاں پر دونوں ہیں۔ جغرافیہ کا جزوی جبر اور انسانی فطرت کا اس سے ملاپ ۔۔۔ کیا یہاں کا عظیم کھیل ان کی قید توڑ سکے گا؟
(جاری ہے)