Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (70) ۔ آرکٹک ۔ پگھلتی برف

آرکٹک کی برف پگھل رہی ہے۔ اس کا گھٹتے جانا سیٹلائیٹ کی تصاویر سے بالکل واضح ہے۔ بیرنگ اور چکچی کے ساحلوں کے قریب آبادیاں نقل مکانی کر چکی ...


آرکٹک کی برف پگھل رہی ہے۔ اس کا گھٹتے جانا سیٹلائیٹ کی تصاویر سے بالکل واضح ہے۔ بیرنگ اور چکچی کے ساحلوں کے قریب آبادیاں نقل مکانی کر چکی ہیں۔ پولر بئیر اور برفانی لومڑیاں بھی نقل مکانی کر رہی ہیں۔ والرس نئی جگہیں تلاش کر رہے ہیں اور مچھلیاں شمال کی طرف جا رہی ہیں۔
برف پگھلنے کے اثرات صرف یہیں تک محدود نہیں، یہ مالدیپ، بنگلہ دیش اور نیدرلینڈز تک جاتے ہیں۔ بڑھتے سمندر ان ممالک کے لئے خطرہ ہیں۔ اور اس وجہ سے آرکٹک صرف مقامی نہیں، بلکہ عالمی ایشو ہے۔
جس طرح برف پگھل رہی ہے اور ٹنڈرا نمودار ہو رہا ہے، دو اور عوامل تیز ہو رہے ہیں۔ صنعتی آلودگی برف پر گر رہی ہے اور اس سے سورج کا انعکاس کم ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ جہاں پر برف نہیں ہوتی، وہ زمین اور سمندر زیادہ حرارت جذب کرتے ہیں۔ اور اس سے یہ عمل مزید تیز ہوتا ہے۔ اس کو ایلبیڈو ایفکٹ کہا جاتا ہے۔ اس کے بہت سے خطرناک اور منفی پہلو ہیں۔ لیکن مثبت سائیڈ یہ کہ گرم ہوتے ٹنڈرا کا مطلب یہ ہے کہ برف سے خالی زمین قابلِ کاشت اراضی بھی ہے۔
اور اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ دنیا کا آخری بڑا قدرتی محفوظ علاقہ بدلنے کے قریب ہے۔
برف کے کم ہونے کی وجہ سے شمالی مغربی راہداری سے اب کارگو کے جہاز سفر کر سکتے ہیں۔ یہ راستہ سال میں گرمیوں کے کئی ہفتے کھلا رہتا ہے اور یہاں پر یورپ سے چین کا سفر ایک ہفتہ کم ہو جاتاہے۔ کارگو کے پہلے جہاز نے یہاں سے 2014 میں سفر کیا تھا۔ نوناوک نامی یہ جہاز کینیڈا سے 23000 ٹن نِکل چین لے کر گیا تھا۔ پانامہ نہر کے ذریعے راستے کے مقابلے میں یہ راستہ چالیس فیصد چھوٹا تھا اور گہرا تھا جس وجہ سے یہ جہاز زیادہ بھاری سامان لے کر جا سکتا تھا۔ دسیوں ہزار ڈالر کا ایندھن بچا۔ 2040 تک توقع ہے کہ یہ راستہ سالانہ دو ماہ کے لئے کھلا رہے گا۔ اور یہ شمال میں تجارتی روابط کو بدل دے گا۔ اور اس کے اثرات مصر اور پانامہ تک جائیں گے جن کے لئے سویز ار پانامہ کی نہروں سے آمدنی متاثر ہو گئی۔
ایک اور راستہ شمالی سمندری روٹ ہے جو کہ سائبیریا کے ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہ اب ہر سال کئی ماہ کھلا رہتا ہے اور مقبول سمندری شاہراہ بن رہی ہے۔
پگھلتی برف ایک اور قسم کی دولت بھی آشکار کر سکتی ہے۔ خیال ہے کہ آرکٹک کے علاقہ میں گیس اور تیل کے بڑے ذخائر ہیں جن تک رسائی ہو سکے گی۔ 2009 میں امریکی ارضیاتی سروے کے مطابق تخمینہ لگایا گیا ہے کہ یہاں 1669 ٹریلین مکعب فٹ گیس اور 90 بلین تیل کے بیرل ہو سکتے ہیں جو زیادہ تر سمندر کے نیچے ہیں۔ اس کے علاوہ سونا، جست، لوہا اور نکل پہلے ہی مل چکے ہیں۔
ایگزون موبل، شیلک اور روزنفٹ تیل کی تلاش کے لئے لائسنس لے رہے ہیں۔ جو ممالک اور کمپنیاں یہاں کی دولت نکالنا چاہتی ہیں، انہیں یہاں کے سخت موسم کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ سمندر پر چھ فٹ موٹی برف کی تہہ بن جاتی ہے اور کھلے سمندر میں چالیس فٹ اونچی لہریں بن سکتی ہیں۔
یہ گندا، مشکل اور خطرناک کام ہو گا۔ اس کیلئے بھاری سرمایہ کاری درکار ہو گی۔ کئی علاقوں میں گیس پائپ لائن نہیں بنائی جا سکے گی۔ اور اسے مائع بنانے کے لئے بہت مہنگا انفراسٹرکچر تعمیر کرنا ہو گا۔ لیکن اگر یہاں مالیاتی اور سٹریٹجک فوائد اٹھائے جا سکیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ بڑے کھلاڑی علاقوں کے دعووں میں سنجیدہ ہو جائیں گے۔ اور ماحولیاتی نتائج ان کو نہیں روک پائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں کے علاقوں کے دعوے اقوام متحدہ کے سمندروں کے بارے میں قوانین (UNCLOS) کے تحت ہوں گے۔ اس کے تحت ملک اپنے ساحل سے دو سو میل دور تک کے علاقے کو Exclusive economic zone ہونے کا اعلان کر سکتا ہے (اگر یہ کسی اور ملک کی سرحد میں نہ آئیں) اور اس کے تیل اور گیس پر ملکیت کا دعویٰ رکھ سکتا ہے۔
آرکٹکٹ کونسل میں آٹھ ممالک ہیں۔ اور پگھلتے آرکٹکٹ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے رویے سخت ہو رہے ہیں۔
ان ممالک میں کینیڈا، روس، امریکہ، ناروے، ڈنمارک، آئس لینڈ، فن لینڈ اور سویڈن ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ کئی ممالک ہیں جو کونسل کا حصہ نہیں۔ اور ان کا موقف ہے کہ ان کا بھی اس علاقے پر حق ہے۔ کچھ ممالک کا موقف یہ ہے کہ “انسانیت کی مشترکہ وراثت” کی تھیوری کے تحت آرکٹک سب کا ہے۔
(جاری ہے)