Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (69) ۔ آرکٹک ۔ سفید حسن

گلوبل وارمنگ کے اثرات سب سے زیادہ آرکٹک میں نمایاں ہیں۔ برف پگھل رہی ہے اور یہاں پر رسائی آسان ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی توانائی کے ذخائر ک...


گلوبل وارمنگ کے اثرات سب سے زیادہ آرکٹک میں نمایاں ہیں۔ برف پگھل رہی ہے اور یہاں پر رسائی آسان ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی توانائی کے ذخائر کی دریافت اور ان کو نکالنے کے ٹیکنالوجی کی ڈویلپمنٹ کا مطلب یہ ہے کہ یہ علاقہ توجہ حاصل کر رہا ہے۔ یہاں پر کئی ممالک کے علاقے پر دعوے ہیں۔ ان کیلئے کسی نے زور نہیں لگایا کیونکہ یہ ویران جگہ تھی۔ لیکن یہ تبدیل ہو رہا ہے۔ جھگڑنے کو اب بہت کچھ ہے۔
بحرِ آرکٹک 54 لاکھ مربع میل پر پھیلا ہے۔ یہ روس کے برابر کا رقبہ ہے۔ اور یہاں پر اتفاق نہیں کہ کونسا علاقہ کس کا ہے۔
آرکٹک کے علاقے میں کینیڈا، گرین لینڈ، آئس لینڈ، ناروے، روس، سویڈن اور امریکا (الاسکا) کی زمین ہے۔ یہاں کی کچھ جگہوں میں گرمیوں میں درجہ حرارت 26 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ جاتا ہے لیکن سردیوں میں طویل عرصے تک منفی 45 سے نیچے گر جاتا ہے۔ بہت خوبصورت fjord، برفانی صحرا، چٹانیں اور برفانی ہوائیں اور دریا بھی ہیں۔ انتہائی خوبصورتی بھی ہے اور انسانی دشوار علاقے بھی۔ اور ہزاروں سال سے انسان کو مسحور کرتے آئے ہیں۔
یہاں پر جانے والی پہلی مہم جو ریکارڈ پر ہے، یہ یونانی ملاح پاتھیاس کی تھی جو 330 قبل مسیح کی ہے۔ اس میں انہیں ایک عجیب زمین ملی تھی جسے انہوں نے تھول کا نام دیا تھا۔ ان کے قصوں پر کم لوگوں نے اعتبار کیا تھا۔ خالص سفید زمین، جمے ہوئے سمندر، بڑے سفید ریچھ۔۔۔ اگلی صدیوں میں لوگ یہاں جاتے رہے۔ یہاں کے عجائب ریکارڈ کرتے رہے۔
پہلا شخص جو قطبِ شمالی تک پہنچا ۔۔۔ یہ ذرا مشکل سوال ہے۔ کیونکہ اگرچہ گلوب میں یہ ایک خاص پوائنٹ ہے لیکن مقناطیسی قطب جھولتا رہتا ہے۔ اور جی پی ایس کے بغیر یہ جاننا مشکل ہے کہ آپ اصل میں کہاں پر ہیں۔ سر ولیم ایڈورڈ پیری نے 1827 میں یہ کوشش کی تھی۔ لیکن برف جنوب کی طرف اس سے زیادہ تیزرفتاری سے سفر کر رہی تھی جس رفتار سے یہ شمال کی طرف جا رہے تھے۔ لیکن کم از کم اس مہم میں زندہ بچ آئے۔
سر جان فرینکلن اتنے خوش قسمت نہیں رہے۔ 1848 میں ان کے دو بحری جہاز کینیڈا کے کنگ ولیم جزیرے کے قریب پھنس گئے۔ 129 لوگ اس میں وفات پا گئے۔ لیکن لوگ کوشش کرتے رہے۔
تاہم، 1905 میں جا کر ناروے کے مہم جو رولڈ آمنڈسن نے صرف پانچ لوگوں کے ساتھ ملکر چھوٹے بحری جہاز میں کنگ ولیم آئی لینڈ سے آگے کا سفر کیا اور Northwest passage کو پار کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سات ستمبر 1909 کو نیویارک ٹائمز میں سرخی چھپی “پئیری نے 23 سال اور آٹھ کوششوں کے بعد بالآخر قطب شمالی دریافت کر لیا”۔ خبر کے مطابق یہ کارنامہ انہوں نے اپریل 1909 میں سرانجام دیا تھا۔
لیکن ایک مسئلہ تھا۔
 نیویارک ہیرالڈ میں اس سے چند روز پہلے سرخی چھپی تھی کہ “قطبِ شمالی کو ڈاکٹر فریڈرک کک نے دریافت کر لیا”۔ اس خبر میں انہوں نے یہ کام اپریل 1908 میں کیا تھا یعنی رابرٹ پئیری سے ایک سال پہلے۔
رابرٹ پئیری اور فریڈرک کک دونوں دوست اور ساتھی تھے جو بعد میں حریف بن گئے تھے۔
سوال یہ تھا کہ قطب شمالی کس نے دریافت کیا تھا؟ اس کا کوئی بھی جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ اور یہ بحث چلتی رہی ہے۔
کتابوں میں اس کا سہرا رابرٹ پئیری کے سر باندھا گیا۔ 1988 میں جب ان کے پیش کردہ ثبوتوں کی نئے سرے سے پڑتال ہوئی تو لگتا ہے کہ پئیری قطب شمالی سے پہلے ہی رک گئے تھے اور واپس مڑ آئے تھے۔ جبکہ کک کے دعوے کو نہ ہی درست ثابت کیا جا سکا اور نہ ہی غلط۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رولڈ آمنڈسن (جو شمال مغربی راہداری پار کرنے والے پہلے شخص تھے) جہاز کے ذریعے قطب شمالی پر پہنچنے والے پہلے شخص تھے۔ اطالوی پائلٹ اور چودہ افراد کے عملے کے ساتھ خاص طور پر تیار کردہ جہاز میں یہاں پہنچے تھے۔
ایک اور دلچسپ کارنامہ جاپان کے شنجی کازاما نے کیا تھا۔ 1987 میں وہ موٹرسائیکل پر قطب شمالی پہنچنے والے پہلے شخص بن گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی کے اوائل میں اس علاقے تک پہنچا گیا۔ اس علاقے کے سفید حسن نے بہت سوں کو متاثر کیا ہے۔ لیکن آنے والے وقت میں یہ علاقہ عالمی سیاست کا اہم باب بن سکتا ہے۔   
(جاری ہے)