Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (67) ۔ لاطینی امریکہ ۔ برازیل

برازیل لاطینی امریکہ کا ایک تہائی حصہ ہے۔ اس کی 27 فیڈرل ریاستیں ہیں اور اس کا رقبہ یورپی یونین کی ریاستوں سے زیادہ ہے۔ اس کا ایک تہائی حصہ ...


برازیل لاطینی امریکہ کا ایک تہائی حصہ ہے۔ اس کی 27 فیڈرل ریاستیں ہیں اور اس کا رقبہ یورپی یونین کی ریاستوں سے زیادہ ہے۔ اس کا ایک تہائی حصہ گھنا جنگل ہے۔ ایمازون جنگل کی تباہی پوری دنیا کے لئے ماحولیاتی مسئلہ ہے۔ حکومت کسانوں کو یہ اجازت دیتی ہے کہ وہ جنگل کاٹ کر زرعی زمین بنا لیں۔ لیکن یہ زراعت کے لئے موزوں نہیں۔ مٹی اتنی خراب ہے کہ چند سالوں سے زیادہ فصل نہیں دے پاتی۔ اور کسانوں کو مزید جنگل کاٹنا پڑتا ہے۔ اور جنگل ایک بار کٹ جائے تو واپس نہیں آتا۔ ماحول اور مٹی زرعی ڈویلپمنٹ کے لئے سازگار نہیں۔
دریائے ایمازون کے کچھ حصے ایسے ہیں جہاں سفر کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے کنارے پختہ نہیں۔ اور کناروں کی زمین پر تعمیر مشکل ہے۔ تاہم، ایمازون سے جنوب کی پہاڑیوں میں اور میدان میں کامیابی کی کہانی ہے۔ تیس سال پہلے اس علاقے کو زراعت کے لئے غیرموزوں سمجھا جاتا تھا۔ لیکن برازیل کی ٹیکنالوجی نے اسے دنیا میں سویابین کی سب سے زیادہ پیداوار کرنے والا ملک بنا دیا۔ غلے کی پیداور بھی بڑھی ہے اور برازیل اب زراعت کی بڑی پیداوار کرنے والا ملک بن رہا ہے۔
اس میدان کے جنوب میں برازیل کے روایتی زرعی علاقے ہیں۔ یہاں پر سب سے پہلے آنے والے پرتگالی کالونیل آباد ہوئے تھے۔ تین صدیوں تک یہاں پر ہی آباد رہے اور پھر بڑی تعداد میں انہوں نے باقی براعظم میں پھیلنا شروع کیا۔ آج بھی آبادی کی اکثریت ساحلی علاقوں میں آباد ہے۔
برازیل نے 1950 کی دہائی میں ایک ڈرامائی فیصلہ کیا تھا۔ ساحل سے کئی سو میل اندر برازیلیا کا شہر بسایا تھا اور اسے اپنا دارالحکومت بنا لیا تھا۔ یہ اس کوشش کا حصہ تھا کہ ملک کا اندرونی حصہ آباد کیا جائے۔
اس کا جنوبی زرعی علاقہ باقی ملک سے چپٹا ہے۔ پانی کی اچھی رسائی ہے۔ سپین، پرتگال اور اٹلی کو ملایا جائے تو اس کا سائز اتنا ہے۔ لیکن ٹرانسپورٹ کے روابط ناقص ہیں۔
اگر برازیل کے ساحلی شہروں کو دیکھا جائے تو ایک ڈرامائی طور پر اونچی چٹان سمندر کو زمین سے الگ کرتی نظر آتی ہے۔ اس کو Grand escarpment (عظیم ڈھانگ) کہا جاتا ہے اور برازیل کے ساحل کا زیادہ تر حصہ ایسا ہے۔ یہ ایک سطح مرتفع کا اختتام ہے جسے برازیلین شیلڈ کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ برازیل کے پاس ساحلی میدان نہیں۔ ساحلی شہروں کو آپس میں ملانے کے لئے اس ڈھانگ سے راستے بنانے پڑتے ہیں اور یہ ایک وجہ ہے کہ یہاں جدید اچھی سڑکیں نہیں۔ اور ریل روڈ بھی اچھی نہیں۔ یہ اتنے بڑے علاقے کو تجارتی اور سیاسی طور پر مربوط کرنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ برازیل کو رائیو ڈی لا پلاٹا کے خطے کے دریاؤں تک براہ راست رسائی نہیں۔ دریا کی پلیٹ خود کو بحراوقیانوس میں ارجنٹینا میں خالی کرتی ہے۔ اس وجہ سے ارجنٹینا سے تجارت آسان رہی ہے جبکہ برازیل کی بندرگاہیں اچھی نہیں رہیں۔ برازیل کی سات بندرگاہیں ہیں اور ان میں آنے جانے والا سامان ملا کر بھی امریکہ کی ایک بندرگاہ نیواورلینز سے کم ہے۔
برازیل اتنی تجارت نہیں کر پاتا جتنی اس کی خواہش ہے۔ طرہ یہ کہ آبی راستے نہ ہونا اور سڑکوں کا ناکافی ہونا اندرون ملک تجارتی لاگت میں اضافہ کر دیتا ہے۔
لیکن برازیل اپنے انفراسٹرکچر پر کام کر رہا ہے۔ سمندر میں ملنے والے گیس کے نئے بڑے ذخائر بھی اس میں مددگار ہیں۔ لیکن اسے اپنے جغرافیائی دقت سے نکلنے کیلئے بہت محنت درکار ہو گی۔
پچیس فیصد برازیلی جھگیوں اور کچی آبادیوں کے مکین ہیں۔ یہ بدنام favela slums ہیں۔ جب آبادی کا ایک چوتھائی حصہ اس قدر غریب ہو تو ریاست کے لئے امیر ہونا مشکل ہے۔ اس کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ برازیل ابھرتی ہوئی طاقت نہیں۔ یہ ابھر رہا ہے لیکن یہ محدود رہے گا۔
لاطینی امریکہ کے ممالک میں وقتا فوقتا یہ کوشش شروع ہوتی رہتی ہے کہ یورپی یونین کے طرز کی تنظیم بنائی جائے۔ عام طور پر اس کی قیادت برازیل کرتا ہے۔ اس کی آجکل جاری کوشش UNASAR کہلاتی ہے جس کے بارہ ممبران ہیں اور ہیڈکوارٹر ایکواڈور میں ہے۔ انٹرنیٹ پر اس تنظیم کی موجودگی متاثر کن ہے۔ لیکن اس سے باہر زیادہ نہیں۔ یورپی یونین کے ممالک میں سیاسی نظام، معاشی سسٹم میں ہم آہنگی ہے۔ زیادہ تر ممبران کی کرنسی بھی ایک ہی ہے۔ لاطینی امریکہ میں سیاست، معیشت، کرنسی، تعلیمی سطح اور محنت کے قوانین میں بہت فرق ہے۔ اس کے علاوہ فاصلے، رکاوٹیں، گھنے جنگل اور اونچے پہاڑ رابطوں کو مشکل بناتے ہیں۔
برازیل جنوبی امریکہ سے آنے والی بڑی طاقت بننے کے لئے کوشاں ہے۔ یہ ملک فطری طور پر جنگجو نہیں۔ اس کی خارجہ پالیسی دوسرے ممالک میں عدم مداخلت کی رہی ہے۔ اور اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ اس کی ہمسائیوں سے جنگ چھڑے۔ جنوبی امریکہ میں اس کے علاوہ گیارہ ممالک ہیں جن میں سے نو ممالک کی سرحدیں اس سے ملتی ہیں اور کسی نہ کسی طرح اس نے سب سے اچھے تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
یوراگوئے سے سرحدی تنازعہ ہے لیکن لگتا نہیں کہ یہاں گرما گرمی ہو گی۔ ارجنٹینا سے اس کی رقابت فٹ بال کے میدان تک رہتی ہے۔ اس نے اپنی فوج ارجنٹینا کی سرحدوں سے یک طرفہ طور پر ہٹا لی تھی اور دوسری طرف سے بھی اس کا یہی جواب آیا تھا۔ ارجنٹینا کے برطانیہ کے ساتھ جھگڑے میں یہ ارجنٹینا کا ساتھ دیتا ہے۔
امریکہ اور برازیل کا تنازعہ اس وقت ہوا جب 2013 میں معلوم ہوا کہ امریکہ کے ادارے نے برازیل کی صدر ڈلما روسف کی جاسوسی کی ہے۔ برازیلی صدر نے اپنا امریکی دورہ منسوخ کر دیا۔ اوبامہ کی انتظامیہ نے اس پر معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ امریکہ کو غصہ تھا کہ برازیل چین سے پینگیں بڑھا رہا ہے۔ برازیل نے اس کے ردعمل میں امریکی کمپنی بوئنگ سے طیارے خریدنے کے بجائے سویڈن کو یہ آرڈر دے دیا۔
حکومتی سطح پر یہ تعلقات کسی حد تک واپس بحال ہو چکے ہیں لیکن داغ رہ گیا ہے۔ بہرحال، وینیزیلا کے برعکس تصادم کرنا برازیلی مزاج نہیں۔ اور برازیل جانتا ہے کہ دنیا اسے نئی طاقت سمجھتی ہے اور جھگڑا مول لینا اس کے لئے کسی طور مفید نہیں۔
(جاری ہے)