Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (66) ۔ لاطینی امریکہ ۔ وسطی امریکہ

وسطی امریکہ میں جغرافیہ اس کی مدد نہیں کرتا۔ صرف ایک فائدہ ہے کہ یہ پتلی جگہ ہے۔ لیکن ابھی تک صرف ایک ملک اس کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوا ...


وسطی امریکہ میں جغرافیہ اس کی مدد نہیں کرتا۔ صرف ایک فائدہ ہے کہ یہ پتلی جگہ ہے۔ لیکن ابھی تک صرف ایک ملک اس کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوا ہے اور یہ پانامہ ہے۔
ہسپانوی مہم جو واسکو بالبوا نے سن 1513 میں بحر اوقیانوس پار کر کے موجودہ پانامہ تک پہنچے۔  جنگلوں اور پہاڑوں میں سے گزرے اور اسے پار کر کے دوسری طرف کے عظیم الشان سمندر کے ساحل تک پہنچ گئے۔ ان دونوں کے درمیان گزرگاہ بنانے کے فوائد اس وقت سے واضح تھے لیکن ٹیکنالوجی کو ایسا ممکن کرنے میں 401 سال لگنے تھے۔ 1914 میں پچاس میل لمبی پانامہ نہر کھل گئی۔ یہ امریکہ کے کنٹرول میں تھی اور آٹھ ہزار میل کا سفر بچاتی تھی۔
اس نہر کا کنٹرول 1999 میں پانامہ کے سپرد ہو گیا تھا۔ یہ غیرجانبدار عالمی گزرگاہ ہے اور اس کی حفاظت پانامہ اور امریکہ کی بحریہ مشترک طور پر کرتے ہیں۔ اور یہاں پر چین کے لئے ایک مسئلہ ہے۔
پانامہ اور امریکہ دوست ہیں۔ اتنے اچھے دوست کہ وینزویلا نے 2014 میں پانامہ سے تعلقات اس بات پر منقطع کر لیے تھے کہ یہ امریکی پٹھو ہے۔ وینیزویلا ایک ایسا ملک ہے جہاں پر چین اپنا اثر بڑھا رہا ہے۔ وینیزویلا دنیا میں تیل کے ذخائر رکھنے والا سب سے بڑا ملک ہے (سعودی عرب دوسرے نمبر پر ہے)۔ اس سے تیل کی طلب چین کو ہے۔ اور اس تجارت کے لئے راستہ پانامہ نہر سے ہے۔
چین عالمی طاقت بننے کا عزم رکھتا ہے۔ اور اس کے لئے اسے ضرورت ہے کہ سمندری راہداریاں کھلی رکھنے کی طاقت رکھتا ہو۔ پانامہ نہر ایک نیوٹرل راستہ ہے لیکن یہ وہ مقام ہے جس کو روکنے کا اختیار امریکہ کے پاس ہے۔ اور یہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔
اور یہ وجہ ہے کہ چین نے اپنا راستہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ یہ نکاراگوا گرینڈ کینال کا پراجیکٹ ہے۔ اس کا مقصد اس براعظم کو ایک اور جگہ سے کاٹ دینا ہے۔ اس کی لاگت پچاس ارب ڈالر ہے۔ پانامہ نہر سے زیادہ چوڑی اور گہری نہر میں بڑے بحری جہاز اور جنگی جہاز جا سکتے ہیں۔ اس پر نکاراگوا کے صدر نے دستخط کر دیے۔ اس نے نکاراگوا کے ملک کو دو میں تقسیم کر دینا تھا جس کو درمیان میں صرف ایک پل سے ملائے جانا تھا۔ چین میں 2018 کے سٹاک مارکیٹ کریش کے بعد اس کے لئے فنڈنگ کے مسائل کی وجہ سے یہ پراجیکٹ سردخانے میں چلا گیا۔
لیکن اکیسویں صدی میں چین افریقہ کی طرح لاطینی امریکہ میں بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔  تعمیرات کے پراجیکٹ کے علاوہ حکومتوں کو قرض دے رہا ہے۔ خاص طور پر وینیزویلا، ایکواڈور اور ارجنٹینا کو۔
اس خطے میں برازیل کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر امریکہ ہوا کرتا تھا۔ اس کے جگہ چین نے لے لی ہے اور یہاں کے ممالک کے لئے اب یہ تجارتی پارٹنر کے طور پر متبادل ہے۔
لاطینی امریکہ کے لوگوں کی امریکہ کے ساتھ کوئی خاص دوستی نہیں ہے۔ امریکہ نے لاطینی امریکہ میں 1890 سے لے کر سرد جنگ کے خاتمے تک تقریبا پچاس مرتبہ فوجی مداخلت کی۔ انقلاب فنڈ کرنا، گروہوں کو مسلح کرنا اور فوجی تربیت دینا اس کے علاوہ تھا۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد یہ مداخلت بھی بڑی حد تک ختم ہو گئی۔ 2001 میں امریکاز کے ممالک نے آپسی تجارتی معاہدے پر دستخط کر لئے۔
تعلقات میں گرمجوشی نہیں رہی اور اس وجہ سے جب چین نے یہاں کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس کے لئے دروازے فٹافٹ کھل گئے۔ چین اب اپنے ہتھیار یوراگوئے، کولمبیا، چلی، پیرو اور میکسیکو کو فروخت کرتا ہے اور عسکری مدد کی آفر کرتا ہے۔ لاطینی امریکہ کو ہتھیاروں کی سپلائی بڑے پیمانے پر تو نہیں لیکن چین کی امیج بلڈنگ اور ارادے کے اظہار کا حصہ ہے۔
لیکن جغرافیے کا مطلب یہ ہے کہ لاطینی امریکہ کے ممالک میں امریکہ ہمیشہ اہم کھلاڑی رہے گا۔
(جاری ہے)