Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (60) ۔ کوریا اور جاپان ۔ متلاطم سمندر

بیسویں صدی کے پہلے نصف میں جاپان ایک طاقتور عسکری طاقت تھا جس نے مشرقی ایشیا کا بڑا حصہ فتح کر لیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کی شکست کے بعد جاپان ...


بیسویں صدی کے پہلے نصف میں جاپان ایک طاقتور عسکری طاقت تھا جس نے مشرقی ایشیا کا بڑا حصہ فتح کر لیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کی شکست کے بعد جاپان بڑی حد تک غیرعسکری ملک بن گیا۔ اس کا نیا آئین اسے مہم جوئی کرنے سے روکتا تھا۔ کئی دہائیوں تک ایسا رہا لیکن پرانی عسکریت پسندی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی تھی۔ 1980 کی دہائی میں پہلی بار قوم پسندی کی ہلکی سی آواز آنے لگی۔ جنگ کو ایک نسل گزر چکی تھی۔ پچھلی نسل میں سے چند ایسے تھے جو جاپان کی جنگی جرائم قبول نہیں کرتے تھے جبکہ نئی نسل میں کچھ ایسے تھے جو اس بات کو تیار نہیں تھے کہ ان کے والدین کی نسل کے کئے کی ذمہ داری لیں۔ ان کے لئے جاپان کو دنیا میں اپنی جگہ بنانا تھی۔
آئین کی لچکدار تشریح معمول بن گئی۔ جاپان سیلف ڈیفنس فورس کو جدید لڑاکا فوج بنایا جانے لگا۔ اس کی ایک وجہ چین کا نئی طاقت بننا تھا۔ امریکہ کو بھی اس خطے میں ملٹری اتحادی کی ضرورت تھی۔
جاپان اب اپنی فوج بنا چکا ہے۔ توقع ہے کہ آئین میں تبدیلیاں ہوں گی۔ پہلی بار 2013 میں قومی سلامتی کی حکمت علمی کی دستاویز نے ایک ممکنہ دشمن کا نام لیا اور کہا، “چین کو حرکات کر رہا ہے، یہ طاقت کے زور پر دھونس جمانے کی کوشش کہی جا سکتی ہے”۔
جاپان کے آئین کا آرٹیکل 9 جاپانی فوج کو ملکی سرحدوں سے باہر جانے سے روکتا ہے۔ کئی سیاسی جماعتیں اس کو ختم کر دینے کے حق میں ہیں۔ اگرچہ عوام میں عسکری مہم جوئی کی پذیرائی اس وقت زیادہ نہیں۔
جاپان نے 2015 میں اپنے دفاعی بجٹ میں بڑا اضافہ کیا۔ نئے سازوسامان میں F35A لڑاکا طیارے بھی خریدے گئے۔ اور بحریہ نے ائیرکرافٹ کیرئیر بھی۔ (یہ جاپان کے لئے ممنوع تھا وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ وہ اسے ائیرکرافٹ کیرئیر کے طور پر استعمال نہیں کریں گے)۔
نئے نویلے اور چمکدار ساز و سامان کا مقصد ارادے کا اظہار بھی ہے اور پوزیشننگ بھی۔ اوکیناوا پر اب ملٹری انفراسٹرکچر نئے سرے سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔ یہ جاپان کو چین کے مقابلے کی صلاحیت دے گا۔ یہاں پر وہ جزیرے ہیں جہاں چین اور جاپان کا تنازعہ ہے۔
جاپان کا سالانہ عسکری بجٹ اب 52 ارب ڈالر ہے۔ اور ہر سال اس میں بڑا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ موازنے کے لئے:  پاکستان کا عسکری بجٹ 8 ارب ڈالر ہے۔ میزائل، بحری جہاز، نئی سہولیات اور طیارے حاصل کر رہا ہے۔
جاپان کا دعوی شمال میں کورل جزائر پر بھی ہے جو اس وقت روس کے پاس ہیں۔ یہ جزائر سوویت یونین نے دوسری جنگ عظیم میں چھینے تھے اور پھر چھوڑے نہیں۔ روس اس معاملے پر بات کرنا پسند نہیں کرتا۔ انیس ہزار کی آبادی والے یہ جزائر بہت اہم نہیں۔ ان کی وجہ سے روس اور جاپان کے تعلقات میں سردمہری رہتی ہے لیکن ان پر تنازعہ گرم نہیں ہوتا۔
جاپانی قیادت کی اصل پریشانی چین سے ہے اور اس وجہ سے امریکہ سے قریبی عسکری اور سفارتی روابط ہیں۔ کئی جاپانی، خاص طور پر اوکیناوا کے رہائشی، امریکی فوج کی اپنے ملک میں موجودگی ناپسند کرتے ہیں۔ لیکن چین کے خوف کا مطلب یہ کہ یہ صورتحال تبدیل نہیں ہو گی۔
جاپان کی ایک اور بڑی پریشانی ان کی آبادی کا گرنا ہے۔ یہ اگلی چند دہائیوں میں دس کروڑ تک گر سکتی ہے۔ اور اگر ٹرینڈ جاری رہا تو 2110 میں یہ پانچ کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ یہ اتنی ہی آبادی ہے جتنی 1910 میں اس کی تھی۔ جاپانی حکومتیں سرتوڑ کوشش کر رہی ہیں کہ اس کو بدلا جائے۔ حکومت کئی ملین ڈالر رشتے کروانے والے خدمات پر خرچ کر رہی ہے۔ کونکاٹسو پارٹیوں کو سبسڈی دی جاتی ہے جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے سے ملاقات کر سکیں۔
ایک اور حل امیگریشن ہے کہ باہر سے لوگ لائے جائیں لیکن جاپان میں اس کی مخالفت پائی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکی کوریا اور جاپان میں ہیں اور رہیں گے۔ کوریا اور جاپان ایک دوسرے کے حریف ہیں اور رہیں گے۔ ان کے پاس جھگڑنے کو بہت کچھ ہے لیکن دونوں کا چین اور شمالی کوریا سے پریشانی کے بارے میں اتفاق ہے۔
اگر کوریا کا مسئلہ کسی طور حل ہو بھی جائے تو چین کہیں جانے والا نہیں۔ اس وجہ سے امریکہ کا ساتواں بحری بیڑہ ٹوکیو کی بندرگاہ پر منڈلاتا رہے گا اور اوکیناوا میں اس کے فوجی چین کے سمندروں پر نظر رکھتے رہیں گے۔
یہاں کے سمندروں میں طوفانوں کا اندیشہ ہے۔  
(جاری ہے)