Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (57) ۔ کوریا اور جاپان ۔ یکجائی؟

جزیرہ نما کوریا کا جغرافیہ سادہ ہے۔ سیاسی لحاظ سے تو یہاں پر دو ملک ہیں جو کہ شمالی اور جنوبی کوریا ہیں لیکن جغرافیہ کے لحاط سے شمال اور جنو...


جزیرہ نما کوریا کا جغرافیہ سادہ ہے۔ سیاسی لحاظ سے تو یہاں پر دو ملک ہیں جو کہ شمالی اور جنوبی کوریا ہیں لیکن جغرافیہ کے لحاط سے شمال اور جنوب کی تقسیم بالکل مصنوعی ہے۔ ایک تقسیم مشرق اور مغرب کی ہے۔ مغرب میں چپٹی زمین ہے اور زیادہ آبادی یہاں پر ہے۔ مشرق میں ہامگیونگ پہاڑ ہیں۔
اس وقت دونوں کوریا تکنیکی اعتبار سے حالت جنگ میں ہیں۔ اور آپس میں اس قدر زیادہ ٹینشن ہے کہ چند گولے فائر ہونا جنگ شروع کر دے گا۔
 جاپان، امریکہ، جنوبی کوریا کو شمالی کوریا کے نیوکلئیر ہتھیاروں کی پرواہ ہے۔ لیکن جنوبی کوریا کو ایک اور فکر بھی ہے۔ نیوکلئیر ہتھیار کی صلاحیت پر ابھی سوالیہ نشان ہو سکتا ہے لیکن 1950 کی طرح یہ کسی بھی وقت روایتی حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
جنوبی کوریا کا دارالحکومت سئیول ایک بڑا شہر ہے۔ اور یہ شمالی کوریا کی سرحد سے صرف پینتیس میل کے فاصلے پر ہے۔ جنوبی کوریا کی نصف آبادی گریٹر سئیول کے علاقے میں رہائش پذیر ہے۔ یہ یہاں کا صنعتی اور اقتصادی مرکز ہے۔ اور یہ سب کچھ شمالی کوریا کی توپوں کے نشانے پر ہے۔
دونوں ممالک کی سرحدوں پر ڈھائی میل چوڑائی کا علاقہ غیرفوجی زون (DMZ) ہے۔ یہ 1953 کی جنگ بندی کے نتیجے میں قائم ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پہاڑی علاقے میں اندازے کے مطابق شمالی کوریا کی دس ہزار توپیں نصب ہیں۔ یہ مضبوط بنکروں اور غاروں میں ہیں۔ اور ان میں سے کئی جنوبی کوریا کے دارالحکومت کو نشانہ بنا سکتی ہیں۔ اگر جنگ کی صورتحال درپیش آئے تو امریکہ اور جنوبی کوریا کی افواج ان میں سے اکثر کو دو سے تین روز میں ختم کر سکتی ہیں لیکن اس وقت تک سئیول شعلوں میں ہو گا۔ اگر دس ہزار گولے بیک وقت شہری اور نواحی علاقوں میں گریں تو تصور کریں کہ یہ کتنی بڑی تباہی مچا سکتے ہیں۔ اور اگر ہر توپ درجنوں گولے فائر کرے؟
وکٹر چا اور ڈیوڈ کانگ اس علاقے کے ماہر ہیں جو کہ لکھتے ہیں کہ شمالی کوریا کسی جنگ کی صورت میں ایک گھنٹے میں پانچ لاکھ گولے برسا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اندازہ بہت زیادہ لگایا گیا ہو۔ لیکن اگر اس کا پانچواں حصہ بھی ہو تو بھی نتائج تباہ کن ہوں گے۔ جنوبی کوریا کی کروڑوں کی آبادی اور کھربوں ڈالر کی صنعت اور معیشت اس کے متاثرین میں سے ہوں گے۔
یہاں پہاڑیاں بہت بلند نہیں اور وسیع میدان میں فوج بہت تیزی سے بڑھ سکتی ہے۔ شمالی کوریا کے جنگی پلان میں زیرِ زمین سرنگیں بھی ہیں۔ اور آبدوزیں بھی جو سئیول پر جنوب سے حملہ آور ہو سکتی ہیں۔ اور ملک کے اندر sleeper سیل بھی متحرک ہو سکتے ہیں۔
شمالی کوریا اس بات کا مظاہرہ بھی کر چکا ہے کہ یہ اپنے میزائل ٹوکیو تک پہنچا سکتا ہے۔ اس کے پاس دس لاکھ کی فوج ہے۔ یہ دنیا کی بڑی افواج میں سے ہے۔ اگر اچھی تربیت یافتہ نہ بھی ہو تو بھی جنگ میں کام آ سکتی ہے۔
اگر جنگ چھڑ جائے تو امریکہ اور جنوبی کوریا کے ساتھ اکٹھی ہی ہو گی۔ اور اس کا مطلب یہ ہو گا کہ چین بھی فل الرٹ پر ہو گا۔ روس اور جاپان بھی پریشان ہوں گے۔
یہ کسی کے لئے بھی اچھا نہیں کہ کوریا میں اگلی جنگ ہو۔ اگرچہ جنگ دونوں ممالک کو تباہ کر دے گی لیکن اس خوف نے پچھلی بار بھی جنگ نہیں روکی تھی۔ جب 1950 میں شمالی کوریا نے جنگ شروع کی تھی تو اسے معلوم نہیں ہو گا کہ اگلے تین سال میں چالیس لاکھ ہلاکتیں ہو جانے کے بعد بے نتیجہ ختم ہو جائے گی۔ اور اگر اب ایسا ہوتا ہے تو یہ تباہی پہلے سے زیادہ بڑی ہو گی۔
جنوبی کوریا کی معیشت شمالی کوریا کے مقابلے میں 80 گنا زیادہ بڑی ہے۔ اس کی آبادی دگنی ہے۔ جنوبی کوریا اور امریکہ کی فوج ملکر بالآخر جنگ جیت لیں گے لیکن پھر کیا ہو گا؟ اس بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ لیکن عام خیال یہی ہے کہ سب کچھ درہم برہم ہو جائے گا۔
کئی ممالک پر اثر ہو گا۔ اور اگر چین جنگ میں باقاعدہ شامل نہیں ہوتا تب بھی اسے دریا پار کر کے شمالی کوریا میں داخل ہونا پڑے گا تا کہ امریکی فوج اس کی سرحد پر نہ آ لگے۔ ہو سکتا ہے کہ چین یہ فیصلہ کرے کہ اس کے ہمسائے میں امریکہ کا اتحادی مشترک کوریا اس کے لئے قابل قبول نہیں۔ ہمسائے میں ایسا طاقتور ملک چینی قومی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ کو یہ فیصلہ لینا ہو گا کہ وہ سرحد سے کتنا آگے تک جائے گا۔ اور یہاں پر سوال شمالی کوریا کی نیوکلئیر سائٹس کا ہو گا۔ یہی سوال چین کا بھی ہو گا۔ اور نیوکلئیر سائٹس چین کی سرحد سے صرف پینتیس میل کے فاصلے پر بھی ہیں۔
سیاسی لحاظ سے جاپان کو فیصلہ لینا ہو گا کہ آیا بحیرہ جاپان کے پار ایک طاقتور اور متحد کوریا اس کے لئے کتنا پریشان ہو گا؟ ٹوکیو اور سیول ایک دوسرے سے اچھے تعلقات نہیں رکھتے۔
اور اگر یہ متحد ہوتے ہیں تو اس کا خرچہ کون برداشت کرے گا؟ جنوبی کوریا کو یہ اچھی طرح سے علم ہے کہ یہ سارا اسی کی جیب سے ہو گا۔ جب مشرقی اور مغربی جرمنی متحد ہوئے تھے تو مشرقی جرمنی پیچھے تو تھا لیکن یہاں تعلیم یافتہ آبادی تھی، صنعت کاری ہو چکی تھی اور ڈویلپمنٹ کی تاریخ تھی۔ شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان بے انتہا فرق ہے۔
خیر، یہ مستقبل کے سوال ہیں۔ ابھی کے لئے دونوں اطراف جنگ کی تیاری میں ہیں۔ ویسے ہی جیسے پاکستان اور انڈیا باہم خوف اور شک کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جنوبی کوریا ایک اقوام عالم کا ایک متحرک رکن ہے اور فعال خارجہ پالیسی رکھتا ہے۔ اس کے پاس قدرتی وسائل نہیں اور تین اطراف میں سمندر ہے۔ اس نے پچھلے تیس سالوں میں جدید بحریہ تشکیل دی ہے۔ جاپان کی طرح ہی اس کی توانائی کی ضروریات بیرونی ذرائع سے آتی ہیں۔ اس لئے اسے خطے کی سمندری راہداریوں پر نگاہ رکھنی ہوتی ہے۔ اور اس نے روس اور چین کے ساتھ روابط بنانے پر بھی کام کیا ہے۔
کوریا اور جاپان کے آپس کے مسائل ہیں۔ اور اس کی وجہ جاپان کی یہاں پر ظالمانہ قبضے کی تاریخ ہے۔ دونوں ممالک کے سرحدی تنازعات بھی ہیں۔ یہ جن جزائر پر ہیں، انہیں کوریا ڈوکڈو جزائر کہتا ہے اور جاپان انہیں ٹاکے شیما جزائر۔ یہ مچھیروں کے لئے بہترین جگہیں ہیں اور ممکن ہے کہ گیس کے ذخائر بھی ہوں۔ اس وقت کوریا ان کو کنٹرول کرتا ہے۔ اپنے تلخ ماضی کے باوجود دونوں کے پاس ایسی وجوہات ہیں کہ ایک دوسرے سے تعاون کریں۔
(جاری ہے)