Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (56) ۔ کوریا اور جاپان ۔ تقسیم

اٹھارہویں صدی کے کوریا کو تارک دنیا بادشاہت (Hermit kingdom) کہا گیا ہے۔ اس نے کوشش کی تھی کہ یہ دنیا سے الگ تھلک رہے کیونکہ صدیوں تک قبضے، ...


اٹھارہویں صدی کے کوریا کو تارک دنیا بادشاہت (Hermit kingdom) کہا گیا ہے۔ اس نے کوشش کی تھی کہ یہ دنیا سے الگ تھلک رہے کیونکہ صدیوں تک قبضے، غلبے اور لوٹ مار کا ٹارگٹ رہا تھا۔
اگر شمال سے دریائے یالو سے یہاں داخل ہوا جائے تو پورے جزیرہ نما میں کوئی بڑی قدرتی رکاوٹ نہیں۔ اور اسی طرح اگر جنوب کے سمندر سے یہاں داخل ہوا جائے تو پھر بھی پورے ملک تک رسائی آسان ہے۔ منگول آئے اور گئے۔ اور پھر چین کے منگ حکمران۔ مینچوریا والے۔ اور کئی مرتبہ جاپانی۔ اس لئے اس ملک کی ترجیح یہ تھی کہ باہر کی دنیا سے الگ رہا جائے۔ اس نے اپنے تجارتی روابط اس امید پر منقطع کر دئے تھے کہ اسے اکیلا چھوڑ دیا جائے گا۔
لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ بیسویں صدی میں جاپانی پھر وارد ہو گئے۔ 1910 میں پورے ملک پر قبضہ کر لیا۔ ان کے کلچر کو تباہ کر دیا۔ کورین زبان پر پابندی لگا دی گئی۔ کوریا کی تاریخ پڑھنا ممنوع قرار پایا۔ شنتو خانقاہوں پر عبادت لازم ہوئی۔ دہائیوں کے اس جبر نے جو وراثت چھوڑی ہے، اس کا آج بھی جاپان اور کوریا کی دونوں ریاستوں کے تعلقات پر اثر ہے۔
جاپان کو دوسری جنگ عظیم میں شکست ہوئی۔ اور اس نے کوریا کو منقسم چھوڑ دیا۔ اڑتیسویں عرض بلد کے شمال میں کمیونسٹ ریاست بنی جس پر پہلے سوویت اور پھر چینی غلبہ رہا۔ جنوب میں امریکہ کی حامی آمریت قائم ہوئی جو کہ ری پبلک آف کوریا کہلائی۔ یہ سرد جنگ کا ابتدائی دور تھا جب ہر انچ زمین پر مقابلہ تھا۔ اور کوئی دوسرے کے لئے جگہ اور موقع خالی نہیں چھوڑ سکتا تھا۔
اڑتیسویں عرض بلد کا انتخاب بس ایسے ہی ہوا تھا اور یہ بدقسمتی تھی۔ مورخ ڈون اوبرڈورفر لکھتے ہیں کہ امریکہ کی توجہ جاپان کی شکست کی طرف اتنی زیادہ تھی کہ اس نے کوریا کے بارے میں کچھ سوچا نہیں تھا۔ جب یہ ہو گیا اور شمال میں سوویت فوج تھی تو وہائٹ ہاؤس میں رات بھر ایمرجنسی میٹنگ ہوتی رہی۔ اس میں دو جونئیر افسران نے ملک کی تقسیم کے لئے اس جگہ کا انتخاب کیا تھا۔ اور ان افسران کے پاس صرف نیشنل جیوگرافک کے بنائے گئے نقشے تھے۔ اس کا انتخاب اس لئے کیا گیا تھا کہ یہاں پر تقسیم کیا جائے تو ملک آدھا آدھا ہو جاتا تھا۔
اس فیصلے میں نہ ہی کوئی کورین شامل تھا۔ اور نہ ہی کوئی کوریا کا ماہر۔  (جب روس اور جاپان کی 1904 میں جنگ ہوئی تھی تو انہوں نے بھی اسی جگہ پر ملک کو تقسیم کرنے کا سوچا تھا)۔
روس کو علم نہیں تھا کہ امریکیوں نے یہ تقسیم کی یہ پالیسی ہوا میں ہی بنائی ہے۔ انہوں نے اس کو تسلیم کر لیا اور یوں دو ممالک بن گئے۔ جزیرہ نما دو میں تقسیم ہو گیا۔
سوویت نے اپنی افواج 1948 میں نکال لیں اور امریکہ نے 1949 میں۔ جون 1950 میں شمالی کوریا نے سرحد پار کر کے جنوب پر حملہ کر دیا تا کہ ایک متحد کمیونسٹ ریاست بن جائے۔ شمال کی فوج نے آسانی سے ملک فتح کر لیا اور جنوب کے سمندر تک پہنچ گئی۔
شمالی کوریا نے یہ اندازہ تو درست لگایا تھا کہ عسکری نقطہ نظر سے کوریا امریکہ کے لئے اتنا اہم نہیں تھا۔ لیکن جس کو سمجھنے میں ناکام رہے تھے، وہ یہ کہ امریکی اس بات کو جانتے تھے کہ اگر وہ اپنے اتحادی کے لئے نہ کھڑے ہوئے تو پھر دنیا بھر میں ان کے اتحادی اس پر اپنا اعتبار کھو دیں گے۔ اور اگر سرد جنگ میں اعتبار کھو دیا تو اس کے اتحادی اسے چھوڑنے لگیں گے۔ اور اس کی عالمی حکمت عملی خطرے میں پڑ جائے گی۔ ممالک کو یہ بھروسہ چاہیے کہ مشکل وقت میں ان کی مدد کی جائے گی۔
ستمبر 1950 میں امریکہ کی قیادت میں اقوام متحدہ کی فوج یہاں داخل ہوئی اور شمالی کوریا کی فوج کو سرحد سے پیچھے دھکیل دیا۔ اور پھر پیچھے اور پھر پیچھے۔ یہاں تک یہ یہ دریائے یالو تک پہنچ گئی جو چین کی سرحد کے قریب تھا۔
اب چین کے فیصلہ کرنے کی باری تھی۔
امریکی فوج کی جزیرہ نما پر موجودگی الگ بات تھی لیکن چین کے قریب؟
چینی افواج دریا پار کر کے امڈنے لگیں۔ 36 مہینے جاری رہنے والی جنگ میں ہر ایک نے بھاری نقصان اٹھایا۔ آخر میں فیصلہ یہی ہوا کہ جو سرحد اڑتیسویں عرض بلد پر طے کی گئی تھی۔ وہاں پر واپس جایا جائے۔ یہ جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا۔ لیکن معاہدہ کوئی بھی نہیں ہوا۔ اور اب تک حالات ایسے ہی ہیں۔ اڑتیسویں عرض بلند پر پھنسے ہوئے ہیں۔
(جاری ہے)