Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (53) ۔ برصغیر ۔ انڈیا

جہاں تک انڈیا کا تعلق ہے تو اگرچہ پاکستان اس کے لئے خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح ہے اور رہے گا لیکن یہ دوسرے کئی کام کر سکتا ہے۔ کیونکہ یہ مع...


جہاں تک انڈیا کا تعلق ہے تو اگرچہ پاکستان اس کے لئے خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح ہے اور رہے گا لیکن یہ دوسرے کئی کام کر سکتا ہے۔ کیونکہ یہ معاشی سپرپاور بننے کا پوٹینشل رکھتا ہے۔
چین کے ساتھ اس کے مسائل ہیں لیکن اسے اطمینان ہے کہ درمیان میں ہمالیہ کے پہاڑ ہیں۔
آپس کے مسائل میں بڑا تبت ہے۔ چین تبت کو نہ ہی چھوڑ سکتا ہے، نہ ہی اسے خودمختاری دے سکتا ہے۔ کیونکہ خودمختار تبت انڈیا کے طرف جھک جائے گا۔
جب چین نے تبت کو اپنا حصہ بنایا تھا تو انڈیا نے جواب میں دلائی لامہ کو پناہ دی تھی اور ساتھ ہی ہماچل پردیش میں تبت کی آزادی کی تحریک کو۔ دھرمشالا اس کا مرکز ہے۔ یہ اس کے لئے طویل مدت کی انشورنس پالیسی ہے۔ اگرچہ تبت کی آزادی ناممکن لگتی ہے لیکن اگر اگلی دہائیوں میں ناممکن ممکن ہو گیا تو انڈیا نئی حکومت کو یاد کروا سکتا ہے کہ برے وقتوں میں اس کا دوست کون تھا۔
چینی اس بات کو سمجھتے ہیں۔ اور اس لئے دھرشالا سے تنگ ہوتے ہیں۔ ان کا جواب نیپال میں آتا ہے جہاں پر ماؤ اسٹ تحریک کی پشت پناہی کی جاتی ہے۔
انڈیا کے لئے ماؤ اسٹ اثر والا نیپال قابل قبول نہیں کیونکہ یہ چین کے زیرِ سایہ ہو گا۔ لیکن چین تجارت اور پیسے سے یہاں پر اثر خرٰد رہا ہے۔ چین کو ماؤ کے خیالات کی پرواہ نہیں لیکن تبت کی پرواہ ہے اور یہ انڈیا کو سگنل ہے کہ تبت کی مداخلت کا جواب نیپال میں مداخلت سے دیا جائے گا۔
اور انڈیا اپنی توجہ جتنی دوسرے ہمسائیوں سے ہٹا لے، وہ چین پر دے سکتا ہے اور اس میں اسے دنیا کے کئی ممالک سے حمایت حاصل ہے۔ اس لئے چین کا مفاد بھی انڈیا کو دوسری جگہوں پر الجھائے رکھنے میں ہے۔
انڈیا کے ساتھ ایک اور مسئلہ اروناچل پردیش کا ہے۔ چین اسے “جنوبی تبت” کہتا ہے۔ جس طرح چین کا اعتماد بڑھ رہا ہے، ویسی ہی زیادہ سے زیادہ علاقے کو “چینی” کہنے کا بھی۔ ایک وقت تک یہ اس ریاست کے صرف مغربی حصے تاوانگ پر دعوے دار تھا۔ لیکن 2000 کی دہائی میں اس نے دعویٰ پوری ریاست پر پھیلا لیا ہے۔ اروناچل پردیش کی سرحد بھوٹان، برما اور چین سے ملتی ہے۔
انڈیا کے کئی علاقوں میں علیحدگی پسند تحریکیں ہیں۔ کچھ زیادہ متحرک ہیں، کچھ پس منظر میں۔ لیکن لگتا نہیں کہ کوئی بھی کامیاب ہو گی۔ مثلاً، سکھ تحریک اپنی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ یہ مسئلہ آتا جاتا رہتا ہے۔ اگرچہ اس تھریک کے دعوے میں پاکستان اور انڈیا دونوں کے حصے ہیں لیکن چونکہ سکھ آبادی کا مرکز انڈیا میں ہے تو یہ انڈیا کا مسئلہ رہا ہے۔ اسی طرح آسام میں تحریکیں ہیں جن میں بوڈو بولنے والوں کی ہے اور دوسری آسام کے مسلمانوں کی۔ ناگالینڈ میں آزاد کرسچن ریاست کی تحریک ہے جہاں کی 75 فیصد آبادی کرسچن ہے۔ لیکن ان میں سے کسی کی کامیابی کے امکانات نہیں ہیں۔ انڈیا میں سترہ کروڑ مسلمان ہیں اور ڈھائی کروڑ سکھ۔ لیکن یہ بڑی حد تک قومی شناخت بنانے میں کامیاب رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈیا رقبے کے لحاظ سے ساتواں اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کے پاس پانی کی قابل اعتبار سپلائی ہے۔ نو ہزار میل کی آبی گزرگاہیں ہیں۔ زرخیز زمین کا بڑا رقبہ ہے۔ کوئلہ، تیل اور گیس معقول مقدار میں ہے۔ اگرچہ یہ انہیں امپورٹ کرتا ہے۔ لیکن اپنے قدرتی وسائل کے باوجود یہ چین کی گروتھ کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ لیکن یہ دونوں ترقی کرتے ملک ہیں جو ایک دوسرے سے ٹکرا سکتے ہیں۔ زمین پر نہیں لیکن سمندر میں۔
ہزاروں سال تک چین اور انڈیا ایک دوسرے کو نظرانداز کرتے رہے ہیں۔ ہمالیہ ایک ناقابل عبور رکاوٹ تھی۔ لیکن اب ٹیکنالوجی کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کو توانائی درکار ہے۔ جغرافیہ نے انہیں اس میں خودکفیل نہیں بنایا۔ اور اس کے لئے انہیں سمندروں میں جانا ہے اور یہاں مقابلہ ہے۔
انڈیا نے بیسویں صدی کے آخر میں “مشرق کی طرف دیکھنے کی پالیسی” اختیار کی تھی۔ برما، فلپائن اور تھائی لینڈ سے تعلقات مضبوط کئے۔ ویت نام اور جاپان کے ساتھ ملکر کام کر رہا ہے۔ اور یہ ساوتھ چائنہ سمندر کا مقابلہ ہے۔ اور اس کے پاس ایک اتحادی امریکہ بھی ہے۔ انڈیا نے کبھی امریکہ پر اعتبار نہیں کیا۔ یہ اسے فرق لہجے اور زیادہ پیسے والا برٹش سمجھتا ہے جس نے ان پر راج کیا تھا۔ لیکن اکیسویں صدی میں انڈیا اب زیادہ پراعتماد ہے۔ اب یہ تعاون ہو سکتا ہے۔
انڈیا کے پاس جدید نیوی ہے جس میں ائیرکرافٹ کیرئیر بھی ہے۔ لیکن گہرے پانیوں کی بحریہ میں چین کی سرمایہ کاری کا مقابلہ کرنا اس کے لئے مشکل ہو گا۔ تاہم، انڈیا تیاری کر رہا ہے کہ اگر یہ بالادستی نہ بھی حاصل کر سکے تو بھی کم از کم مقابل قوت تو ہو جب چینی بحریہ چینی سمندروں سے ہوتی ہوئی ملاکا اور پھر خلیج بنگال تک پہنچے گی۔ اور پھر انڈیا کے جنوبی کنارے سے گھومتی ہوئی بحیرہ عرب میں اور پھر اپنی دوستانہ بندرگاہ میں جو کہ گوادر میں ہے۔
انڈیا کے لئے ہمیشہ سب گھوم پر پاکستان پر ہی آ جاتا ہے اور پاکستان کے لئے انڈیا میں۔
(جاری ہے)