Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (52) ۔ برصغیر ۔ پاک افغان تعلقات

  پاکستان اور افغانستان کے آپس کے تعلقات ابتدا سے ہی مشکل رہے ہیں۔ اور اس کی وجہ دونوں کے درمیان کی سرحد ہے۔ پاک افغان سرحد کو ڈیورنڈ لائن ...

 


پاکستان اور افغانستان کے آپس کے تعلقات ابتدا سے ہی مشکل رہے ہیں۔ اور اس کی وجہ دونوں کے درمیان کی سرحد ہے۔
پاک افغان سرحد کو ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے۔ ڈیورنڈ برٹش انڈیا حکومت کے خارجہ سیکرٹری  تھے۔ یہ انہوں نے 1893 میں بنائی تھی اور افغان حکمران نے اس پر اتفاق کیا تھا۔ یہ 1660 میل لمبی عالمی سرحد ہے۔ اس کی موجودہ شکل 1919 میں ہونے والے برٹش افغان معاہدے کا نتیجہ ہے۔
جب پاکستان قائم ہوا تو افغان لویا جرگہ نے 1949 میں اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ معاہدہ کالونیل حکومت سے تھا۔ نہ صرف اسے بلکہ کسی بھی سرحد کو۔ پاکستان کوشش کرتا رہا ہے کہ افغانستان اپنا ذہن بدل لے۔
پاکستان اور امریکہ کا یہاں پر تعلق پیچیدہ رہا ہے۔ سوویت جنگ میں امریکہ اور پاکستان ملکر اپنے پسندیدہ گروہوں کی مدد کرتے رہے۔ کلاشنکوف، بم، میزائل، اور جنگجو سرحد سے آر پار ہوتے رہے۔ اس میں دنیا کے کئی ممالک سے آنے والے تھے۔ جنگ سمٹی، امریکہ کا پراجیکٹ ختم ہوا اور سوویت کے نکل جانے کے بعد یہ بھی نکل لیا۔ لوگ اور مسائل یہیں رہے۔ پاکستان کے اپنے فیورٹ تھے۔  2001 میں امریکہ اپنی سرزمین پر حملے کا بدلہ لینے ایک بار پھر یہاں پہنچ گیا۔ پاکستان کے بازو مروڑ کر دھمکی لگائی اور اسے اپنے ساتھ ملا لیا۔ لیکن یہ نیم دلی سے بنائے جانے والا اتحاد تھا۔ کیونکہ پاکستان نے اپنے سابق دوستوں اور اتحادیوں سے بھی لڑنا تھا۔ اس کا جواب آیا اور پاکستان کا ایک وقت میں اپنے بڑے علاقے پر کنٹرول ختم ہو چکا تھا۔ ملک بدامنی کا شکار ہوا۔ دھماکے اور کارروائیاں معمول بنیں۔ ایک لاکھ کے قریب شہریوں کا جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ عرب، چیچن اور دوسرے تو واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ یہاں کے لوگوں نے تو یہیں رہنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانیہ نے 2006 میں فیصلہ کیا کہ جنوب میں ہلمند کے صوبے میں امن لانے کے لئے فوج بھیجے گا۔ یہاں پر افغان حکومت کی رٹ اس کی دارالحکومت لشکرگاہ سے زیادہ دور نہیں تھی۔ یہ ایک مثال تھی جب ایک ملک نے تاریخ کو بالکل فراموش کر دیا تھا۔ ایسا کیوں؟ اس کی وجہ کسی کو سمجھ نہیں آئی۔ برطانیہ کے وزیرِ دفاع نے کہا “ہم یہاں پر معیشت اور جمہوریت کی تشکیل نو کے لئے آئے ہیں۔ اور مجھے امید ہے کہ تین سال میں ہم جب یہ جگہ چھوڑیں گے تو ایک گولی بھی نہیں چلی ہو گی”۔
یہاں پر 450 برطانوی فوجی مارے گئے۔
افغان مزاحمت کاروں نے امریکیوں کو زخم لگائے، برطانویوں کو اور ناٹو کو۔ اور پھر یہ سب سامان لپیٹ کر یہاں سے چلے گئے۔
اس دوران پاکستان کو ڈبل گیم کھیلنا تھی۔ کیونکہ اس میں تو شک نہیں تھا کہ ایک روز امریکیوں نے یہاں سے چلے جانا ہے اور جب یہ چلے جائیں گے تو پاکستان نے یہاں کی حکومت سے معاملہ کرنا ہی ہے۔ کسی کو مستقل دشمن بنانا اپنی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔
اسلام آباد اور راولپنڈی میں اس بات کی اچھی سمجھ تھی اور پاکستان کے پاس کوئی بھی اچھا انتخاب نہیں تھا۔ پاکستان کے لئے یہ سال بہت سخت رہے۔ ہوشربا اموات اور بیرونی سرمایہ کاری کا خاتمہ عام شخص کی زندگی مشکل کر دیتا ہے۔ آرمی کے پانچ ہزار لوگ اس میں مارے گئے ہیں۔ اس سے شروع ہونے والی خانہ جنگی پاکستان کی ریاست کے نازک اندرونی اتحاد پر دباؤ ڈال رہی ہے۔
ان بھول بھلیوں سے نکلنا اور معمے کو حل کرنا پاکستان کی بقا کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
(جاری ہے)