Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (51) ۔ برصغیر ۔ سرحدی مسائل

ان ممالک کا آپس کا بڑا مسئلہ کشمیر ہے۔ جزوی طور پر یہ قومی فخر کا مسئلہ ہے لیکن سٹریٹجک بھی ہے۔ اس مسئلے کی جڑ 1947 میں تقسیم ہند کے وقت کے...


ان ممالک کا آپس کا بڑا مسئلہ کشمیر ہے۔ جزوی طور پر یہ قومی فخر کا مسئلہ ہے لیکن سٹریٹجک بھی ہے۔ اس مسئلے کی جڑ 1947 میں تقسیم ہند کے وقت کے ابہام سے ہے۔ لیکن اس کا ایک اہم چیز تیس جولائی 1947 کو برٹش کا فیصلہ تھا۔
کشمیری کی ریاست نے بلتستان اور گلگت پر قبضہ کرنے کی کئی بار کوشش کی تھی۔ مہاراجہ گلاب سنگھ اور رنبیر سنگھ نے یہاں پر مہمات بھیجیں لیکن یہاں کشمیری فوج کو متعدد بار شکست ہوئی۔ 1870 میں گلگت شہر ان کی گرفت میں آیا لیکن یہ علاقے بڑی حد تک آزاد رہے۔ برٹش حکومت انہیں روس کے خلاف بفر کے طور پر دیکھتی تھی اور 1885 میں برٹش انڈیا نے براہِ راست ایجنسی قائم کر دی۔
روس میں کمیونسٹ انقلاب آیا۔ سنکیانگ میں اس کا اثر بڑھ گیا اور اس کو روکنے کے لئے برٹش انڈیا نے یہاں پر باقاعدہ اپنی فوج تعینات کر دی۔ یہ تیرہ ریاستیں تھیں جو برٹش نے اپنے کنٹرول میں لے لیں۔ ایک مقصد بالشویک لٹریچر کو کشمیر پہنچنے سے روکنا بھی تھا اور ایسی کسی تنظیم سازی کو روکنا بھی تھا اور چین کی طرف سے کسی پیشقدمی پر نظر رکھنا بھی۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے اس پر اعتراض کر دیا۔ ان کو خاموش کروانے کے لئے علامتی طور پر تیرہ ریاستوں کی ساٹھ سال کی لیز کے عوض 75,000 روپے دے دیے گئے۔ یہ گلگت وزارت کا قیام تھا اور اس نے اس علاقے کی قسمت پر بڑا اثر ڈالا۔ واپس جاتے وقت تاریخ کے اس تعلق کی بنا پر اس علاقے کو واپس جولائی 1947 میں کشمیر کے مہاراجہ کے سپرد کیا گیا۔ اور اس کی قسمت کشمیر سے نتھی ہو گئی۔
اور اس لئے، انڈیا نہ صرف آزاد کشمیر پر دعوٰی کرتا ہے، بلکہ بلتستان، گلگت اور چترال تک کے علاقے پر۔ اگر اس کے پاس مکمل کنٹرول آ جائے تو یہ انڈیا کو وسطی ایشیا تک راستہ دیتا ہے اور افغانستان کے ساتھ سرحد بھی۔ اور اس کا یہ مطلب بھی ہو گا کہ پاکستان اور چین آپس میں ہمسائے نہیں رہیں گے۔
پاکستانی حکومت چین کے ساتھ تعلق کو “ہمالیہ سے اونچا اور سمندر سے گہرا” کہتی ہے۔ اس میں مبالغہ آرائی ہے لیکن یہ بہت مفید تعلق رہا ہے۔ اور یہ تعلق انڈیا کے علاوہ امریکہ کو بھی خاص پسند نہیں۔ چین اس وقت پاکستانی فوج کا امریکہ سے زیادہ بڑا سپلائر ہے۔ (2015 میں اس نے کئی ارب ڈالر کی ڈیل کی تھی جس میں آٹھ آبدوزیں اور چھ بحری جہاز شامل تھے)۔
انڈیا CPEC پر معترض ہے کہ اس کی نظر میں اس کا راستہ انڈیا کی سرزمین سے گزرتا ہے۔ امریکہ اور انڈیا کو یہ منصوبہ زیادہ نہیں بھاتا کیونکہ یہ چین کو اہم راستہ دے دیتا ہے۔ اسے روکنے کی ایک جگہ گلگت بلتستان ہے۔ اگر یہاں بدامنی ہو تو یہ اسے کنٹرول کرنا پاکستان کے لئے مشکل ہو گا لیکن یہاں پر قوم پرست تنظیموں کو ابھارنے کی کوشش ناکام رہی ہے۔ لیکن اگر کسی طرح پاکستان اور چین کا رابطہ کاٹا جا سکے تو یہ انڈیا کے لئے بہترین خبر ہو گی۔ کیونکہ یہ اس کے دیرینہ حریفوں کو لگام ڈال دے گا۔ اس وجہ سے یہ اپنا دعویٰ گلگت بلتستان اور چترال کے علاقے پر نہیں چھوڑے گا۔ اور اپنے نقشے میں اس علاقے کو انڈیا کا حصہ نہ دکھانے کو جرم رکھے گا۔
اگر پاکستان کے پاس کشمیر کا مکمل کنٹرول آ جائے تو اس سے انڈیا کی خارجہ پالیسی کے آپشن محدود ہو جاتے ہیں۔ ووسرا فائدہ پاکستان کو پانی کی سیکورٹی کا ہے۔
سندھ کا دریا ہمالیہ سے شروع ہوتا ہے، کشمیر سے گزرتا ہوا پاکستان میں بہتا ہے اور کراچی میں بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ سندھ اور اس کی شاخیں پاکستان کے دو تہائی کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے بغیر پاکستان منہدم ہو جائے گا۔
پاکستان اور انڈیا نے پانی کی تقسیم کا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ اور اپنی جنگوں کے باوجود اس کی پاسداری کرتے رہے ہیں۔ لیکن دونوں ممالک کی آبادی خوفناک طریقے سے بڑھ رہی ہے اور پانی کی مانگ بھی۔ دوسری طرف، گلوبل وارمنگ پانی کا بہاؤ کم کر سکتی ہے۔ اور پانی کی سپلائی کے لئے کشمیر اہم ہے۔
تو اس علاقے کی اہمیت کے پیش نظر کوئی بھی سائیڈ اپنا موقف ترک نہیں کرے گی۔  اور جب تک کشمیر پر معاملہ نہیں بنے گا، اس وقت تک دونوں ایک دوسرے کے سامنے ہتھیار اٹھائے کھڑے رہیں گے۔ یہ وہ تنازعہ ہے جو دنیا میں کسی بھی وقت بڑی جنگ کا سبب بن سکتا ہے۔
اس کے علاوہ، دونوں ممالک ایک اور جنگ میں مصروف رہیں گے۔ یہ پروکسی جنگ افغانستان میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان اور انڈیا کی سرحد کے شمال میں پہاڑ ہیں، جنوب میں دلدل اور درمیان میں تھر کا صحرا۔ یہ کسی فوج کے پار کرنے کے بہت مشکل مقامات ہیں۔ آسان راستہ ان کے درمیان پنجاب میں ہے اور یہ میدانی علاقہ ہے جس میں آسانی سے حرکت کی جا سکتی ہے۔
اگر انڈیا بھاری فورس کے ساتھ بڑا حملہ کرے؟(عسکری منصوبہ بندی میں پر پلان ارادے کا نہیں بلکہ صلاحیت کا بنایا جاتا ہے)۔ پاکستان کے اہم شہر سرحد سے دور نہیں۔
پاکستان کا پلان اے پنجاب میں ہی حملہ روکنے اور جوابی وار کا ہے جس میں انڈیا کی ہائی وے 1A کو کاٹ دینا ہے۔ آرمی جتنی بھی طاقتور ہو، اگر اسے سپلائی نہ ملے تو لڑ نہیں سکتی۔
لیکن کسی بھی ایسی جنگ کی صورت میں اسے کابل میں دوست حکومت چاہیے۔ اگر انڈیا کی دوست حکومت کابل میں ہو تو پاکستان کو دونوں اطراف سے بھینچا جا سکتا ہے اور یہ وجہ ہے کہ کابل میں دونوں ممالک دخل دیتے رہتے ہیں۔ دونوں کی خواہش یہ ہے کہ یہاں ان کے دشمن کے دشمن کا کنٹرول رہے۔
جب سوویت افغان میں 1979 میں آئے تو انڈیا نے ماسکو کو سفارتی سپورٹ دی۔ لیکن پاکستان نے فوری طور پر امریکی اور سعودی مدد حاصل کی کہ مجاہدین ریڈ آرمی سے لڑ سکیں۔ اور جب سوویت شکست کھا کر نکلے تو افغان میں اپنی پسند کی حکومت بنانے پر توجہ ہو گئی۔
جب امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا تو نتیجے میں بننے والی حکومت کی حمایت لینے میں انڈیا کامیاب رہا۔ اس نے کہا کہ یہ افغانستان کا ہمسایہ ہے (انڈیا کے بنائے گئے نقشے میں ایسا ہی ہے کیونکہ اس میں چترال تک کا علاقہ انڈیا کا حصہ ہے)۔ افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کی۔ لیکن امریکہ کے نکل جانے نے حکومت بدل دی۔ اور اب نئی حکومت کی ہمدردیوں کے بارے میں کہا نہیں جا سکتا کہ یہ کس طرف ہوں گی۔
(جاری ہے)