Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (48) ۔ برصغیر ۔ تقسیم

برصغیر پر صدیوں تک مختلف فاتح آتے رہے ہیں لیکن کوئی اسے مکمل فتح نہیں کر سکا۔ آج بھی انڈیا پر نئی دہلی کا اور اسلام آباد کا پاکستان پر زو...


برصغیر پر صدیوں تک مختلف فاتح آتے رہے ہیں لیکن کوئی اسے مکمل فتح نہیں کر سکا۔ آج بھی انڈیا پر نئی دہلی کا اور اسلام آباد کا پاکستان پر زور محدود ہے۔  
برصغیر کو ایک قیادت کے نیچے اکٹھی کرنے میں زیادہ کامیابی مسلمان حکمرانوں کو ہوئی تھی لیکن لسانی، مذہبی اور کلچرل فرق کم کرنے میں نہیں۔
پہلی بار مسلمان حملہ آور ساتویں صدی میں آئے۔ یہ امیہ خلافت کے وقت کے عرب تھے جو موجودہ پنجاب تک پہنچے۔ اس کے بعد سے اٹھارہویں صدی تک مختلف بیرونی حملہ آور مغرب سے آتے رہے۔
اسلام کے آنے کا دوسرا راستہ مشرق میں رہا۔ یہ سلطانوں سے نہیں بلکہ بحر ہند کے تاجروں سے آیا تھا۔ بنگال کے علاوہ ساحلی علاقوں، ملیشیا، انڈونیشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں اسلام اس طریقے سے پھیلا ہے۔ کچھ مورخین نے اسے “مون سون اسلام” کا نام دیا ہے اور یہ اپنے مزاج میں کچھ الگ رہا ہے۔ (مون سون ہوائیں یہاں کے سمندروں کی تجارت ممکن کرتی تھیں اور تاجروں کے قیام کے طویل وقت بھی)۔
بنگال کے مغرب اور وادی سندھ کے مشرق میں ہندو آبادی کی اکثریت اپنے دھرم پر قائم رہی۔ اور برصغیر کی ملکی سرحدوں کی تقسیم بھی بعد میں اسی بنیاد پر ہوئی۔
برٹش آئے اور گئے۔ اور جب یہ گئے تو مرکز اکٹھا نہیں رہ سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل میں مرکز تھا بھی نہیں۔ یہ علاقہ قدیم تفرقات میں تقسیم تھا۔ پنجاب اور گجرات کی زبان، صحرا اور پہاڑ، اسلام اور ہندومت۔ 1947 میں یہ دو بڑے حصوں میں تقسیم ہوا اور بعد میں تین میں۔ یہ بنگلہ دیش، پاکستان اور انڈیا بن گئے۔ برٹش دوسری جنگ عظیم کے بعد کمزور ملک تھا۔ جس طریقے سے یہ یہاں سے بھاگے، وہ مسائل کا سبب رہا۔
تین جون 1947 کو برطانوی پارلیمان میں اعلان ہوا کہ برٹش برصغیر سے دستبردار ہو جائیں گے۔ اور اس سے 73 روز بعد وہ غائب ہو گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد غیرمعمولی پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔ مسلمان پاکستان کی طرف، جبکہ ہندو اور سکھ انڈیا کی طرف گئے۔ بستیوں پر بستیاں اکھڑ گئیں۔ پناہ گزینوں سے بھری ٹرینیں پٹڑیوں پر بھاگ رہی تھیں۔ نسلوں سے ایک جگہ پر آباد لوگ نامعلوم کی سمت میں روانہ تھے اور زیادہ تر اپنی مرضی سے نہیں، پیدا ہو جانے والے حالات کا نتیجہ تھے۔
یہ خوف اور دہشت کا وقت تھا۔ فسادات پھوٹ پڑے تھے جس کا نشانہ ہر کوئی تھا۔ انڈیا اور پاکستان کے لیڈروں کو ایسا ہو جانے کا خوف تھا۔ اور انہوں نے کئی بار برٹش حکومت سے درخواست کی تھی کہ امن قائم رکھنے کے لئے فوج اور پولیس کو متعین کیا جائے۔ لیکن برٹش اپنے ہاتھ جھاڑ چکے تھے۔
اس بارے میں اچھے اعداد و شمار تو نہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ لوگ مارے گئے اور ڈیڑھ کروڑ کو گھر چھوڑنا پڑے۔ گنگا کے طاس اور تھر کے صحرا کے مغرب میں مغربی پاکستان بن گیا اور کلکتہ کے مشرق میں مشرقی پاکستان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں پاکستان کے ہاتھ جو آیا، وہ انڈیا کے مقابلے میں بہت کم تھا۔ اسے وراثت میں برٹش کے مشکل مسائل ملے۔ اس میں شمال مغربی سرحد کے علاقے تھے جو افغانستان کے ساتھ سرحد تھی۔ مشرق کی نوابی ریاست کشمیر کا قضیہ تھا۔ اس کے علاوہ اس کے دو حصوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ درمیان میں انڈیا تھا۔ اور اس میں کوئی تعجب نہیں کہ یہ جلد الگ ہو گئے۔ مشرقی پاکستان نے مغربی پاکستان کے غلبے کے خلاف بغاوت کی اور بنگلہ دیش بن گیا۔
(جاری ہے)