Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (47) ۔ برصغیر ۔ اقوام کا براعظم

انڈیا نہ کوئی قوم ہے، نہ ہی ملک۔ یہ اقوام کا چھوٹا براعظم (برصغیر) ہے۔ محمد علی جناح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انڈیا اور پاکستان کم ہی چیزوں پر متفق ہیں...


انڈیا نہ کوئی قوم ہے، نہ ہی ملک۔ یہ اقوام کا چھوٹا براعظم (برصغیر) ہے۔
محمد علی جناح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈیا اور پاکستان کم ہی چیزوں پر متفق ہیں۔ لیکن ایک بات جس پر یہ دونوں اتفاق رکھتے ہیں، وہ یہ کہ دونوں کو اپنا ہمسایہ پسند نہیں۔ اور یہ ایک مسئلہ ہے۔ دونوں کے درمیان طویل سرحد ہے جو 1900 میل پر پھیلی ہے۔ دونوں نیوکلئیر طاقتیں ہیں۔ اور بڑی آبادیوں والے ممالک ہیں۔ ان کے آپس کے تعلقات کروڑوں زندگیوں کا معاملہ ہو سکتے ہیں۔
انڈیا اب آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب۔ سے بڑا ملک ہے اور پاکستان پانچواں سب سے بڑا۔ دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ ان دو ممالک میں رہتا ہے۔
پاکستان ایک غریب اور غیرمستحکم ملک ہے جو خود اپنی شناخت انڈیا سے اپوزیشن کے طور پر کرواتا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں تقاریر ہوں یا بین الاقوامی فورم پر مذاکرات۔ پاکستان کی طرف سے کی گئی بات چیت کا بہت کم حصہ اپنے سمیت کسی بھی اور موضوع پر ہوتا ہے۔ اس کا فوکس انڈیا ہے۔ دوسری طرف، انڈیا میں بھی ایسا جنون پایا جاتا ہے لیکن یہ اپنی تعریف کچھ اور حوالوں سے بھی کرتا ہے۔ یہ دنیا میں ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے جہاں مڈل کلاس بڑھ رہی ہے۔ اور اس وقت تقریبا تمام معاشی اور جمہوری اعشاریوں میں اپنے ہمسائے سے آگے ہے۔
دونوں ممالک چار باقاعدہ جنگیں لڑ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی گاہے بگاہے جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔ جذبات گرم رہتے ہیں۔ انڈین ڈیفنس ریویو میں 2014 میں ڈاکٹر امرجیت سنگھ نے لکھا کہ “میری رائے یہ ہے کہ ایک ہی بار نیوکلئیر جنگ ہو جائے۔ چند کروڑ لوگ کا جان سے جانا ہزار زخموں سے مرنے سے بہتر ہے۔ یہ زخم ہماری توانائی سلب کر لیتے ہیں”۔
یہ سرکاری پالیسی تو نہیں لیکن ان ممالک کے عوام کی رائے کی ایک عکاسی ہے۔
دونوں برصغیر کے جغرافیے میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس کے فریم میں خلیج بنگال، بحرہند اور بحیرہ عرب جنوب میں ہیں۔ ہندوکش اور ہمالیہ شمال میں۔ مغرب میں بلوچستان کا صحرا رفتہ رفتہ بلند ہوتا ہے اور خیبر پختونخواہ کے پہاڑوں تک پہنچتا ہے جو اونچے ہوتے ہوئے ہندوکش بنتے ہیں۔ مشرق میں جائیں تو قراقرم اور پھر ہمالیہ کے سلسلے ہیں۔ یہاں چین سے برما تک کی سرحد ہے۔ اور پھر جب انڈیا بنگلہ دیش کے پاس خم کھاتا ہے تو یہ خلیج بنگال سے جا ملتا ہے۔
اس فریم کے اندر جدید انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان ہیں۔ نیپال اور بھوٹان سمندر سے دور غریب ممالک ہیں جو انڈیا اور چین کے بڑے ہمسائیوں کے بیچ ہیں۔ بنگلہ دیش کا مسئلہ یہ نہیں کہ یہ سمندر کے پاس نہیں بلکہ اس سے الٹ ہے۔ سمندر کو بنگلہ دیش تک کچھ زیادہ ہی رسائی ہے۔ نشیبی علاقوں میں سیلاب اس کا مسئلہ ہیں۔ اس کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ہر طرف انڈیا ہے۔ یہ 2545 میل لمبی سرحد ہے جس پر 1974 میں اتفاق ہوا تھا۔ اس کے علاوہ سرحد کا ایک چھوٹا سا حصہ برما کے ساتھ ہے جو باہر کی دنیا تک ایک راستہ ہے اور یہاں بنگلہ دیش اور برما کے درمیان روہنگیا کا مسئلہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنگلہ دیش میں استحکام نہیں رہا اور یہاں انتہاپسند عناصر بھی انڈیا کو تنگ کرتے رہے ہیں۔ لیکن یہ تینوں چھوٹے ممالک انڈیا کے لئے خطرہ نہیں۔ اسے مسئلہ صرف مغربی ہمسائے سے ہے۔ اور یہ بھی اتنا نہ ہوتا اگر اس نے نیوکلئیر ٹیکنالوجی نہ بنا لی ہوتی۔
اس فریم کے اندر کا علاقہ چپٹا ہے اور متنوع ہے۔ اور یہ اتنا بڑا ہے کہ اس پر مضبوط مرکزی حکمرانی مشکل رہی ہے۔  برٹش نے کالونیل حکمرانی میں اسے اکٹھا کیا تھا جس میں فعال بیوروکریسی اور ریل کے نظام کا بھی ہاتھ تھا۔ لیکن اس میں علاقائی خودمختاری دی تھی اور مقامی لیڈروں کو ایک دوسرے سے لڑا کر رکھا تھا۔ لسانی اور کلچرل تنوع کی ایک وجہ موسموں کا تنوع ہے۔ مثلا، ہمالیہ کے برفانی علاقوں اور جنوب کے جنگلوں میں بہت فرق ہے۔ اس کی ایک اور وجہ یہاں کے دریا ہیں۔
دریائے سندھ، گنگا، براہم پتر کے ساتھ ساتھ الگ تہذیبیں پھیلی اور بڑھی ہیں۔ آج بھی آبادی کے بڑے مراکز ان دریاؤں کے کناروں پر ہیں اور اپنے منفرد کلچر رکھتے ہیں۔
سباشین پرانج لکھتے ہیں کہ “پنجاب کے سکھ اور تامل ناڈو کے تامل میں آپس میں کم چیزیں مشترک ہیں۔ زبان، مذہب، موسم، رہن سہن، تاریخ، خوراک، نسل۔ ایک پنجابی کے لئے تامل زمین اجنبی ملک ہے۔ یہ خطہ اقوام کا براعظم ہے۔”۔   
(جاری ہے)