Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (5) ۔ روس ۔ گرم پانی

روس یورپ میں طاقت سمجھی جاتی ہے لیکن ایشیائی طاقت نہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اگرچہ اس کا 75 فیصد علاقہ ایشیا میں ہے لیکن صرف 22 فیصد آبادی یہاں...


روس یورپ میں طاقت سمجھی جاتی ہے لیکن ایشیائی طاقت نہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ اگرچہ اس کا 75 فیصد علاقہ ایشیا میں ہے لیکن صرف 22 فیصد آبادی یہاں پر ہے۔ تیل، گیس اور معدنیات کی وجہ سے سائبیریا روس کا خزانہ تو ہے لیکن یہاں رہنا بہت دشوار ہے۔ مہینوں تک منجمد زمین۔ وسیع جنگل (ٹائیگا)، زراعت کے لئے غیرموزوں مٹی۔ اور دور تک پھیلے ہوئے دلدلی علاقے۔ مشرق سے مغرب تک صرف دو ریلوے لائن ہیں۔ شمال سے جنوب تک ٹرانسپورٹ کے ذرائع مفقود ہیں۔ نہ افراد ہیں اور نہ سپلائی لائن کہ یہ چین یا منگولیا کو اپنی عسکری طاقت سے دھمکانے کی اہلیت رکھتا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستقبل بعید میں شاید چین کے پاس سائبیریا کے کچھ حصے کا کنٹرول ہو۔ روس کی گرتی ہوئی آبادی اور چینی آبادی کی کی شمال کی طرف منتقلی اس کی وجہ ہوں گے۔ زیادہ تر شہروں اور قصبوں میں چینی ریسٹورنٹ ہیں اور چینی بزنس آ رہے ہیں۔ جبکہ روسی یہاں سے رخصت ہو رہے ہیں۔ چینی سیاسی اور کلچرل اثر روس کے بعید مشرق میں  بڑھ رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آپ روس کے مرکز سے دور جاتے ہیں تو بہت سی آبادی وہ ہے جو کہ نسلی طور پر روسی نہیں ہیں اور ماسکو سے وفاداری کو اہمیت نہیں دیتے۔ اس کا نتیجہ اپنی آبادی پر سیکورٹی کا جارحانہ سسٹم ہے۔ جب کوئی علاقہ مرکز سے وفادار نہ ہو تو پھر اسے بزورِ طاقت کنٹرول کیا جاتا ہے۔ رشین فیڈریشن میں چیچنیا اور داغستان اس کی مثال ہیں۔
دیگر معاملات کے ساتھ افغانستان میں ہونے والی شکست نے بھی سوویت یونین کے ٹوٹنے اور روس کے سکڑنے میں کردار ادا کیا تھا۔ اور یہ کمیونسٹ دور سے پہلے والی حالت میں آ گیا تھا۔ بیلاروس، آذر بائیجان، یوکرین، جارجیا، لیٹویا وغیرہ اب اس کے سرحدی پڑوسی بن گئے۔
افغانستان میں ہونے والی جنگ صرف کمیونزم کو اس ملک تک لے جانے کے لئے نہیں تھی۔ الٹرا نیشنلسٹ روسی سیاستدان ولادمیر ژرونکسی کے الفاظ میں اس کا مقصد “بحرِہند کے گرم پانیوں میں اپنے بوٹ دھونے” کا بھی تھا۔ اور یہ روس کا پرانا خواب رہا ہے کیونکہ اس کے پاس کوئی ایسی بندرگاہ نہیں رہی جو سردیوں میں منجمد نہ ہو جاتی ہو۔ بحرالکاہل میں اس کی سب سے بڑی بندرگاہ ولاڈیووسٹک چار ماہ تک ناقابلِ استعمال رہتی ہے۔ آرکٹک میں اس کی بندرگاہیں جیسا کہ مرمانسک کئی مہینوں تک جمی رہتی ہیں۔ اس سے صرف سستی تجارت ہی بند نہیں ہوتی بلکہ روس کا بحری بیڑہ بھی متاثر ہوتا ہے جو کہ اس کو عالمی طاقت کے طور پر آپریٹ کرنے میں رکاوٹ ہے۔
لیکن گرم پانیوں کی کھلی راہوں کا خواب اب ماسکو سے دور جا چکا ہے۔ کم از کم بھی دو صدیاں دور۔
گرم پانی کی بندرگاہ تک براہِ راست رسائی نہ ہونا ہمیشہ سے روس کے لئے مسئلہ رہا ہے۔ اور اس میں تعجب کی بات نہیں کہ پیٹر اعظم نے 1725 میں اپنی وصیت میں اپنے جانشینوں کے لئے لکھا تھا کہ “جتنا ممکن ہو سکے، ہندوستان اور قسطنطنیہ کے قریب پہنچنا ہے۔ جو یہاں تک پہنچ پائے گا، دنیا کی طاقت اس کے ہاتھ میں ہو گی”۔
اگلی صدیوں میں یہ روسی پالیسی میں اہم رہا ہے۔
(جاری ہے)