Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (44) ۔ مشرقِ وسطیٰ ۔ عرب بہار

سن 2010 میں کئی عرب ممالک میں احتجاج ہوئے، انقلاب آئے۔ نتیجہ خانہ جنگی اور بدامنی کی صورت میں نکلا۔ مغربی میڈیا نے اس کو “عرب بہار” کا نام ...


سن 2010 میں کئی عرب ممالک میں احتجاج ہوئے، انقلاب آئے۔ نتیجہ خانہ جنگی اور بدامنی کی صورت میں نکلا۔ مغربی میڈیا نے اس کو “عرب بہار” کا نام دیا تھا (جو غلط اصطلاح تھی)۔ علاقے اور کلچر سے ناواقف میڈیا اپنے کیمرے لے کر یہاں پر پہنچا تھا اور پلے کارڈ اٹھائے نوجوانوں کے انٹرویو نشر کئے تھے۔ ایسا ہی ایران کے “سبز انقلاب” کے وقت کیا تھا۔ یہ اس سادہ لوح سوچ کی وجہ سے تھی کہ تبدیلی ہمیشہ جمہوریت کی طرف سفر کرے گی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب دنیا میں کمیونزم کے جبر کا خاتمہ ہوا اور آہنی پردہ گر گیا تو مشرقی یورپ کے ممالک میں بہت جلد جمہوریت آ گئی۔ مبصر یہ خیال کرتے تھے کہ جبر کے خاتمے کا یہی مطلب ہوتا ہے لیکن تبدیلی کسی بھی سمت میں جا سکتی ہے۔ لبرل ڈیموکریسی، نیشنلزم، مضبوط آمر، مذہبی ریاست سمیت کئی سمتیں ہیں۔
طاقت بندوق کی نالی سے بہتی ہے۔ آپ چوک میں پلے کارڈ پر نعرے لکھ کر کھڑے ہو سکتے ہیں لیکن اگر آپ کو گولی مار دی جائے تو پھر آپ طاقت کے سٹرکچر پر فرق نہیں ڈال سکتے۔ ایسے ممالک بہت سے ہیں جہاں نام کی جمہوریت تو ہے لیکن اختلاف کرنے پر زندگی چھین لئے جانا غیرمعمولی نہیں۔
لیکن مشرق وسطی میں تبدیلی جاری ہے۔ اور یہ پیچیدہ اندرونی جدوجہد ہے۔ سماجی روایات، مذہبی عقائد، قبائل روابط، بندوق، انسانی حقوق، آزادی اظہار کے درمیان مکالمہ پیچیدہ ہے۔ لیکن آخر میں، بندوق اہم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب حسنی مبارک کو مصر کے صدر کے طور پر نکالا گیا تھا تو یہ عوامی طاقت تھی لیکن باہر کی دنیا جس بات کو سمجھنے میں ناکام رہی تھی وہ یہ کہ مصر کی فوج بھی ان سے اور ان کے بیٹے جمال سے بیزار ہو چکی تھی۔ اور عوامی غم و غصے کے تھیٹر نے اس اقتدار کو ختم کرنے کا موقع دے دیا تھا۔
مصر میں صرف تین ادارے تھے۔ مبارک کی الحزب الوطنی، ملٹری اور اخوان۔ ملٹری اور اخوان نے ملکر الحزب الوطنی کو ختم کر دیا (یہ 2011 میں کالعدم قرار پائی)۔ اخوان نے انتخاب جیت کر حکومت بنائی اور پھر اس کی باری آئی اور ملٹری نے اسے بھی ختم کر دیا۔
ایسے معاشرے جہاں پر جوابدہی نہ ہو، ادارے کام نہ کرتے ہوں تو طاقت گینگ کے پاس ہوتی ہے۔ یہ سیاسی پارٹی کے بھیس میں ہو سکتے ہیں یا ہتھیار بند افراد کے بھیس میں۔ اقتدار کی جنگ میں سادہ لوح تبصرہ نگار کسی سائیڈ کی طرف سے تالیاں بجاتے اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ معصوم لوگ مرتے رہتے ہیں۔
یہی لبییا، سیریا، یمن، عراق اور دیگر ممالک میں ہوتا ہے۔
امریکی اس خطے سے ہاتھ جھاڑ رے ہیں۔ اپنی سیاسی اور عسکری سرمایہ کاری کم کر رہے ہیں۔ ان کی توانائی کی ضروریات کا انحصار کم ہونے کے ساتھ ان کے لئے اس خطے میں دلچسپی کم ہو رہی ہے۔ اور نئے کھلاڑیوں کی آمد ہے۔ باہر سے آنے والوں میں چین زیادہ بڑا ہے۔ اور پھر انڈیا ہے۔ سعودی عرب، عراق اور ایران سے چین معاملات کر رہا ہے۔ نئی صف بندی اور نئی کھیل جاری ہیں۔
اس خطے کی سرحدیں جنگ عظیم کے بعد بنائی گئی تھیں۔ یہ شاید برقرار رہیں گی۔ یہاں کے بدلتے علاقائی اتحاد، مقامی اور علاقائی سیاسی شطرنج کی داؤ پیچ جاری رہیں گی۔   
لوگوں کی امنگیں، خواب، امیدیں اور زندگیاں ان پر منحصر رہیں گی۔
(جاری ہے)