Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (43) ۔ مشرقِ وسطیٰ ۔ ترکیہ

ایران سے شمال مغرب میں جو ملک ہے، وہ بیک وقت یورپی بھی ہے اور ایشیائی بھی۔ ترکی عرب سرزمین کی سرحد پر ہے لیکن عربی نہیں ہے۔ اور اگرچہ اس کا ...


ایران سے شمال مغرب میں جو ملک ہے، وہ بیک وقت یورپی بھی ہے اور ایشیائی بھی۔ ترکی عرب سرزمین کی سرحد پر ہے لیکن عربی نہیں ہے۔ اور اگرچہ اس کا زیادہ حصہ مشرقی وسطیٰ کے علاقے کا ہے لیکن یہ خود کو یہاں سے فاصلے پر رکھنا پسند کرتا ہے۔
ترک کے شمالی اور شمال مغربی ہمسائے اسے دل سے یورپی تسلیم نہیں کرتے۔ اگر اس کو یورپی ملک مان لیا جائے تو اناطولیہ کے بڑے علاقے کی سرحد دور تک پھیلی ہے اور سیریا، عراق اور ایران سے متصل ہے۔ اس تصور کو کم لوگ تسلیم کرتے ہیں۔
اور اگر یہ یورپ کا حصہ نہیں تو پھر یہ کہاں پر ہے؟ اس کا سب سے بڑا شہر، استنبول، 2010 میں یورپی کلچر کیپیٹل تھا۔ یورپ کے موسیقی کے مقابلے یوروویژن میں حصہ لیتا ہے۔ فٹ بال کی ٹیم یورپ کی لیگ میں حصہ لیتی ہے۔ یورپی یونین کا رکن بننے کی درخواست 1987 میں کی تھی۔ تاہم اس کے جغرافیے کا پانچ فیصد سے بھی کم حصہ یورپ میں ہے۔ زیادہ تر جغرافیہ دان باسفورس سے مغرب کے علاقے کو یورپ کا حصہ قرار دیتے ہیں اور یہ ترکی کا چھوٹا سا علاقہ ہے۔
یورپی یونین کے رکن کے طور پر قبول نہ کئے جانے کی ایک وجہ یہ جغرافیہ ہے۔ لیکن دوسری وجوہات بھی ہیں۔ ایک مسئلہ انسانی حقوق کے بارے میں ریکارڈ کا ہے اور خاص پر طور کرد آبادی کے بارے میں۔ ایک اور مسئلہ آبادی کا ہے۔ ترکی کی آبادی ساڑھے آٹھ کروڑ ہے۔ اوسط آمدن اور معیار زندگی یورپ کے معیار سے کم ہے اور یورپی ممبرشپ کا مطلب بڑے پیمانے پر ترک آبادی کا یورپ میں آ جانے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ ایک اور وجہ (جس کے بارے میں اعلانیہ بات نہیں کی جاتی یا جا سکتی) یہ ہے کہ ترکی کی 98 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ یورپی یونین سیکولر یا کرسچن تنظیم نہیں۔ لیکن “اقدار” کے بارے میں مشکل مباحث ہیں۔ اور ان کا مطلب یہ ہے کہ ترکی کی یورپ میں شمولیت کا امکان ماند پڑتا گیا ہے۔ اور اس نے ترکی کو دوسری سمت دیکھنے پر مجبور کیا ہے۔
جب ترکی 1923 میں ایک ملک بنا تھا تو اس کے پاس ایک ہی انتخاب تھا اور اس کا نام مصطفی کمال پاشا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد یہ وہ واحد ترک جنرل تھے جنہوں نے عزت کمائی تھی۔ جب فاتح طاقتوں نے ترکی کا بٹوارہ کیا تھا تو جیتنے والوں کی مسلط کردہ شرائط کے خلاف انہوں نے مزاحمت کا جھنڈا بلند کیا تھا۔ اور جیتنے والوں کے خلاف کامیاب عسکری مزاحمت کی تھی۔ یہاں سے صدر بنے اور ترکی کو بھی تبدیل کیا۔ مغربی قوانین اور کیلنڈر اپنایا۔ ترکی سرخ ٹوپی (fez) منع کی۔ لاطینی حروف نے عربی کی جگہ لے لی۔ خواتین کو ووٹ کا حق دیا (فرانس نے یہ حق اس سے پندرہ سال بعد دیا تھا)۔ ان کی وفات 1938 میں ہوئی اور ان کے بعد آنے والے لیڈروں نے بھی ترکی کو مصطفے کمال کے وژن پر چلایا۔ اور جس نے اس سے اتفاق نہیں کیا، اس کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اس وقت میں ترکی کی سمت صرف یورپ کی طرف ہی تھی۔
لیکن یورپ سے مسلسل ضدی انکار رہا۔ اور سیاستدانوں کی نئی نسل نے وہ کر دیا جو ایک وقت میں ناقابل تصور تھا۔ ترکی نے ترگت اوزال کو 1989 میں صدر منتخب کر لیا۔ اوزال ترکی کو یورپ میں نہیں بلکہ یورپ، ایشیا اور مشرق وسطی کے درمیان رابطے کے پل کے طور پر دیکھتے تھے۔ ایسا ملک کو ان تینوں خطوں میں اہم طاقت بن سکتا تھا۔ موجودہ صدر طیب اردگان بھی ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں لیکن ان میں کچھ رکاوٹیں حائل ہیں اور ان کا ایک حصہ جغرافیائی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاسی نقطہ نظر سے عرب ممالک ترکیہ سے خائف ہیں۔ عثمانیہ سلطنت عرب دنیا میں مقبول نہیں رہی۔ عربوں پر ترک تسلط چار صدیوں تک رہا تھا اور عرب اسے تاریخ کا ناپسندیدہ وقت سمجھتے ہیں۔ جب عثمانی سلطنت کی بات کی جاتی ہے تو یہ عربوں کو کھٹکتی ہے۔ اور اردگان اپنے تابناک ماضی کو یاد کرتے ہوئے اس کا تذکرہ کرتے رہے ہیں۔ عرب اس پرانے وقت کو نہیں بھولے اور قریبی تعلقات رکھنے سے گھبراتے ہیں۔ ایران ترکیہ کو طاقتور ملٹری اور معاشی مقابل کے طور پر دیکھتا ہے۔ سیریا کی خانہ جنگی میں دونوں ممالک مخالف سائیڈ کی طرف سے شریک رہے ہیں اور اس وجہ سے ان کے آپس کے تعلقات سردمہری کا شکار ہیں۔ ترکیہ نے مصر میں اخوان کی حکومت کی مکمل حمایت کی تھی اور یہ پالیسی اس وقت الٹ پڑ گئی جب مصری فوج نے مرسی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھال لیا۔ قاہرہ اور انقرہ کے درمیان تعلقات بھی سرد ہیں۔
ترکیہ اور اسرائیل کے تعلقات کی آنکھ مچولی پیچیدہ رہی ہے۔ تعلقات سرد ہیں لیکن ختم نہیں ہوئے۔ اور یہ دونوں اہم تجارتی پارٹنر ہیں۔  ایک مسئلہ سمندر سے نکالے جانے والے تیل اور گیس کا ہے۔ سمندری سرحدیں مبہم ہیں اور یہاں پر گیس کے ذخائر دریافت ہو رہے ہیں۔ اسرائیل، قبرص اور گریس، ترکی ۔۔ یہ اس توانائی کی مثلث میں ہیں۔ اگر اسرائیل زچ ہو تو قبرص اور گریس سے اس کا اتحاد بنا لینا ترکیہ کے لئے ایک مسئلہ ہے۔ ترکیہ ان دونوں ممالک کے ساتھ دیرینہ تنازعات رکھتا ہے۔ اس وجہ سے ایسی پوزیشن نہیں لے سکتا جو خطے کے اس کے پرانے دشمن ممالک کو آپس میں اتحاد میں دھکیل دے۔
تعلقات کے اس کرتب کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ترکیہ اور اسرائیل، دونوں امریکہ کے اہم اتحادی ہیں۔ اور ترکیہ ناٹو کا ایک بہت اہم ملک ہے۔ یہ بحیرہ اسود کے ٹریفک کو کنٹرول کرتا ہے۔ اور اس کی جگہ آبنائے باسفورس ہے۔ یہ اپنے تنگ مقام پر ایک میل سے بھی کم ہے۔ اگر یہ اس کو بند کر دے تو روس کا بحری بیڑہ بحیرہ روم اور اوقیانوس میں نہیں جا سکتا۔
ترکیہ بحری پاور نہیں ہے۔ لیکن اس کی سرحدوں پر تین سمندر ہیں۔ اور اس وجہ سے سمندروں میں اس کی اہمیت ہے۔
ترکیہ ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ مشرق وسطی میں جمہوریت کام کر سکتی ہے۔ نقاد اس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر عرب ریاستوں کے مقابلے میں ترکیہ جمہوری اقدار کے اعتبار سے بہت آگے ہے۔ آزادی اور معیار زندگی کے لحاظ سے بہت سے ممالک سے آگے ہے۔
(جاری ہے)