Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (38) ۔ مشرقِ وسطیٰ ۔ سرحدیں

اس علاقے کو مشرقِ وسطیٰ کیوں کہا جاتا ہے؟ کس کے مشرق میں؟ کہاں کے وسط میں؟ اس خطے کا یہ نام یورپیوں کے دنیا کے بارے میں نقطہ نظر سے ہے۔ اور ...


اس علاقے کو مشرقِ وسطیٰ کیوں کہا جاتا ہے؟ کس کے مشرق میں؟ کہاں کے وسط میں؟ اس خطے کا یہ نام یورپیوں کے دنیا کے بارے میں نقطہ نظر سے ہے۔ اور یورپیوں کے نقطہ نظر نے اس خطے کو شکل دی ہے۔ یورپیوں نے یہاں کے نقشوں پر سیاہی سے لکیریں لگا کر ایسی سرھدیں تخلیق کی تھیں جن کا زمینی حقائق سے خاص تعلق نہیں تھا۔
مشرقِ وسطیٰ میں 2014 میں دولت اسلامیہ نامی گروہ کی وحشت ناک ویڈیوز دنیا میں پھیل رہی تھیں۔ دھماکوں، ہتھیاروں اور قتل و غارت کے مناظر دکھائے جا رہے تھے لیکن ان میں سے ایک پراپیگنڈا ویڈیو دلچسپ تھی۔ اس میں ایک بل ڈوزر ریت کے ٹیلے کو ہٹا رہا تھا۔ یہ عراق اور سیریا کے درمیان کی سرھد تھی۔ اور ساتھ جنگجو کی طرف سے الفاظ تھے کہ “الحمداللہ، ہم سرحدیں ختم کر رہے ہیں اور رکاوٹیں ہتا رہے ہیں۔ ہم نے سائیکس پیکو کو توڑ دیا ہے۔ اگلے برسوں میں ہونے والی جنگ و جدل کے نتیجے میں یہ گروہ ختم ہو گیا، سرحدیں باقی رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں سرحدیں کم تھیں۔ جغرافیہ کے درمیان علاقوں پر نسلی اور مذہبی اکٹھ کی بنیاد پر الگ حکومتیں تھیں جو کہ ڈھیلی ڈھالی سی تقسیم تھی اور کوئی قومی ریاست بنانے کی کوشش نہیں کی گئی تھی۔
مشرقِ وسطیٰ مغرب میں بحیرہ روم اور مشرق میں ایران کے پہاڑوں کے درمیان ایک ہزار میل کا علاقہ ہے۔ شمال میں بحیرہ اسود اور جنوب میں عمان کے ساتھ بحیرہ عرب تک دو ہزار میل ہے۔ اس میں بڑے صحرا، نخلستان، برف پوش پہاڑ، لمبے دریا، عظیم شہر اور ساحلی میدان ہیں۔ اور یہاں پر قدرتی دولت بڑی مقدار میں ہے جو کہ اس شکل میں ہے جو صنعتی ممالک کو درکار ہے۔ یہ تیل اور گیس ہیں۔
یہاں پر زرخیز علاقہ ہے جسے میسوپوٹیمیا کہا جاتا تھا۔ اس کے معنی دریاؤں کے درمیان کی زمین کے ہیں جو کہ دجلہ اور فرات ہیں۔ لیکن سب سے بڑا فیچر عرب کا صحرا ہے جو کہ اردن، سیریا، اسرائیل، کویت، عمان، یمن اور سعودی عرب کے بڑے حصے پر ہے۔ اسکو الربع الخالی کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا میں ریت کے مسلسل صحراؤں میں سب سے بڑا ہے۔ آبادی کی جگہیں اس کے کنارے ہیں اور یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ یورپی کالونیل دور سے قبل یہاں پر قومی ریاستیں اور نشان زدہ سرحدیں نہیں تھیں۔
ایک علاقے کا شخص علاقے کا سفر کر کے اپنے قبیلے کے کسی عزیز سے ملنے اس وقت تک نہیں جا سکتا جب تک اس کے پاس کوئی دستاویز نہ ہو۔ جو کہ کسی تیسرے شہر سے جاری کی گئی ہو۔ اس کی یہاں پر کوئی تک نہیں بنتی تھی۔ یہاں کے لئے یہ اجنبی خیال تھا کہ کوئی بتائے گا کہ یہ دو الگ علاقے ہیں جن کے الگ نام ہیں اور درمیان میں سرحد آتی ہے۔ یہاں کی صدیوں کی رہن سہن ایسی نہیں تھی۔
عثمانی سلطنت (1299 سے 1922 تک) یہاں پر طویل عرصہ حکمران رہی۔ یہ ویانا کی دہلیز سے اناطولیہ سے ہوتے ہوئے عرب سے گزر کر بحرہند تک پھیلی تھی۔ آج کے علاقوں میں سے الجیریا، لیبیا، مصر، اسرایئل، فلسطین، سیریا، اردن، عراق اور ایران کا کچھ حصہ اس کے پاس تھا۔ اس نے ان خطوں کو کوئی نام نہیں دئے تھے۔ انتظامی یونٹ بنائے تھے جن کو ولایت کہا جاتا تھا۔ اور یہ اس بنیاد پر تھے کہ کچھ قبیلے کہاں رہتے ہیں۔
جب عثمانی سلطنت ختم ہونے لگی تو برٹش اور فرنچ کے اپنے آئیڈیا تھے۔ 1916 میں برطانیہ کے سفارت کار کرنل مارک سائیکس نے پنسل سے نقشے پر کچھ لکیریں لگائیں۔ یہ حیفہ (موجودہ اسرایئل) سے شمال مشرق میں کرکوک (موجودہ عراق) تک تھیں۔ فرانس میں ان کے ہم منصب پائیکو تھے۔ اور یہ لکیریں ان کے آپس کے معاہدے کی بنیاد بنیں کہ جب عثمانی سلطنت کو شکست ہو گی تو اس کا بٹوارہ کیسے ہو گا۔ اس لکیر کے شمال میں فرانس اور جنوب میں برٹش۔
سائیکس پیکو کی اصطلاح بیسویں صدی کی پہلی ایک تہائی میں ہونے والے فیصلوں کا شارٹ ہینڈ بن گئی۔ اس علاقے میں یورپیوں کی آمد سے قبل بھی تشدد اور قبائلی جنگ و جدل تھی۔ ان تخلیق کردہ ممالک کی تقسیم نے یہ یہاں انصاف، مساوات یا استحکام میں مدد نہیں کی۔
اس سے پہلے نہ ہی سیریا کی ریاست تھی، نہ لبنان کی۔ نہ اردن تھا، نہ عراق، سعودی عرب، کویت، اسرائیل یا فلسطین۔ آج کے نقشوں میں جو سرحدیں ہیں، یہ کمسن اور نازک ہیں۔
یہاں پر اسلام غالب مذہب رہا ہے لیکن اس کے اپنے اندر کئی فرقے ہیں۔ اور سب سے قدیم تنازعہ سنی اور شیعہ کا ہے۔ یہ تقسیم قدیم اور تلخ رہی ہے۔
اس تقسیم کے اندر بھی تقسیم در تقسیم ہے۔ لیکن خلاصہ یہ ہے کہ قومی ریاستوں کے عدم استحکام میں یہ بھی ایک فیکٹر رہا ہے۔
(جاری ہے)