Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (37) ۔ افریقہ ۔ جنوبی افریقہ

جنوبی افریقہ براعظم کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ اس کی آبادی ساڑھے پانچ کروڑ ہے۔ ملٹری طاقتور ہے اور معیشت انگولا سے تین گنا ہے۔ یہ کئی دوسرے مما...


جنوبی افریقہ براعظم کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ اس کی آبادی ساڑھے پانچ کروڑ ہے۔ ملٹری طاقتور ہے اور معیشت انگولا سے تین گنا ہے۔ یہ کئی دوسرے ممالک سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اس کی لوکیشن افریقہ کے جنوبی کنارے پر ہے جو اسے دو سمندروں تک رسائی دیتی ہے۔ سونا، چاندی اور کوئلے کے وسائل ہیں۔ موسم اور زمین ایسی ہے جہاں پر خوراک کی اچھی پیداوار ہو سکتی ہے۔
جنوبی افریقہ کو باقی ممالک پر ایک اور بڑا فائدہ حاصل ہے۔ ساحلی میدان جلد ہی پہاڑ بن جاتے ہیں۔ اور اس وجہ سے یہ ان بہت کم افریقی ممالک میں ہے جو ملیریا کے عذاب سے محفوظ ہیں۔ یورپی قابض بھی اسی وجہ سے یہاں پر اندر تک پہنچے اور چھوٹے پیمانے پر صنعت کاری بھی شروع کی۔
جنوبی افریقہ میں ریل اور سڑک کی اچھی ٹرانسپورٹ کے رابطے ہیں۔ اور یہ زمبابوے، زیمبیا، بوٹسوانا، ملاوی اور تنزانیہ تک جاتی ہیں۔ اور پھر کانگو اور موزمبیق تک بھی۔
جنوبی افریقہ کسی بھی جنگ کی صورت میں مضبوط دفاع رکھتا ہے۔ ایک لاکھ تربیت یافتہ فوجی، درجنوں لڑاکا طیارے اور ہیلی کاپٹر۔ کئی جدید آبدوزیں اور جنگی بحری جہاز ہیں۔ یہ افریقہ کی طاقتور ملٹری ہے۔
برٹش سلطنت کے دنوں میں جنوبی افریقہ کو کنٹرول کرنے کا مطلب دو سمندروں کا ٹریفک کنٹرول کرنا تھا۔ اب جدید بحریہ اس سے دور رہ کر کام کر سکتی ہے لیکن پھر بھی یہ اچھی سٹریٹجک جگہ ہے۔
اکیسویں صدی میں افریقہ پر نئی طرز کا مقابلہ جاری ہے۔ اور جنوبی افریقہ اس سے فائدہ اٹھانے کی اچھی پوزیشن میں ہے۔
یہ جنوب کے پندرہ ممالک کے افریقی اتحاد (SADC) کی قیادت کرتا ہے۔ مشرق میں پانچ ممالک کا اتحاد برونڈی، کینیا، روانڈا، یوگینڈا اور تنزانیہ پر مشتمل ہے۔ جنوبی افریقہ کا اس پر بھی اثر ہے۔
جنوبی افریقہ کی فوج انگولا کی خانہ جنگی میں ملوث رہی۔ اس وقت اس کا ایک برگیڈ کانگو میں مقیم ہے۔ اور یہاں پر یوگینڈا، روانڈا اور برونڈی سے اس کا تنازعہ ہے کہ کون انچارج ہے۔
افریقہ کے ممالک کی سرحدیں یورپی طاقتوں نے بنائی تھیں۔ اب یہاں پر آبادی بڑھ رہی ہے اور بڑے شہر بن رہے ہیں۔ اب یہ باقی دنیا سے تعلق بنا رہا ہے۔ بہت سے مسائل ہیں لیکن تیز ترقی بھی ہو رہی ہے۔
جن دریاؤں نے تجارت میں خلل دالا تھا، اب انہیں بجلی بنانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جس زمین میں خوراک کی پیداوار مشکل تھی، اب یہاں سے معدنیات اور تیل نکل رہا ہے۔ اگرچہ یہ دولت عام شخص کے پاس کم پہنچ رہی ہے لیکن غربت کم ہوئی ہے۔ صحت کی سہولیات بڑھی ہیں۔ تعلیم میں اضافہ ہوا ہے۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ کئی ممالک کی معیشت کا انحصار عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتوں پر ہے۔ اگر تیل کی قیمت سو ڈالر سے گر کر ساٹھ ڈالر ہو جائے تو مسئلے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ صنعتیں کم ہیں۔ کرپشن ہر جگہ پر ہے اور بہت ہے۔ صومالیہ، نائیجیریا اور سوڈان جیسے بڑے ممالک میں علاقے ہیں جہاں جنگ جاری ہے۔ کئی ایسی معیشتیں ہیں جو منجمد ہیں۔
بہرحال، ہر سال نئی سڑکیں بنتی ہیں۔ پٹڑیاں بچھتی ہیں۔ براعظم کو جوڑا جا رہا ہے۔ سمندروں اور صحراؤں کے فاصلے سمیٹے جا رہے ہیں۔ ایسے جگہوں پر بندرگاہیں بن رہی ہیں جہاں قدرتی طور پر موجود نہیں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افریقہ کے بارے میں 1960 کے بعد سے ہر دہائی میں رجائیت پسند لکھتے آئے ہیں کہ افریقہ اب اپنے ماضی سے نکل کر خوشحالی کے کنارے پر ہے۔ اب بھی ایسا ہی لکھا جا رہا ہے۔
کچھ اندازوں کے مطابق سب صحارن افریقہ میں اس وقت 1.1 ارب آبادی ہے۔ اور 2050 تک یہ توقع ہے کہ یہ اس سے دگنی سے زیادہ ہو جائے گی۔  
افریقہ کا سوال اب ڈھائی ارب لوگوں کا سوال ہو گا۔ امید ہے کہ رجائیت پسند اب کی بار درست ہوں گے۔
(جاری ہے)