Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (33) ۔ افریقہ ۔ کانگو

ملکی سرحدوں کی سب سے بڑی ناکامی براعظم کے وسط میں ہے۔ یہاں کا ایک بڑا علاقہ ہے جو کو ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو (DRC) کا نام دیا گیا۔ یہ جگ...


ملکی سرحدوں کی سب سے بڑی ناکامی براعظم کے وسط میں ہے۔ یہاں کا ایک بڑا علاقہ ہے جو کو ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو (DRC) کا نام دیا گیا۔ یہ جگہ جنگ کی دھند کی تاریکی میں رہی ہے۔ کمزور اور منقسم ریاست، جو کہ اندرونی تنازعات کی آگ میں جلتی رہی ہے۔ اور اس کی قدرتی دولت سے باہر والے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔
کانگو کا ملک یہ بھی دکھاتا ہے کہ “ترقی پذیر ملک” ایک غلط اصطلاح ہے۔ دنیا میں ہر ملک ترقی کی راہ پر نہیں ہوتا۔ نہ ہی یہ ترقی کر رہا ہے اور نہ ہی ایسا کرنے کے آثار نظر آتے ہیں۔ اس کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ اور دنیا کا ایسا خطہ ہے جس میں جاری جنگ خبروں میں کم ہی آتی ہے۔ 1990 کی دہائی کے بعد سے جاری جنگوں میں ساٹھ لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔
ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو میں نہ ہی ڈیموکریسی ہے اور نہ ہی یہ ری پبلک ہے۔ یہ افریقہ کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کی آبادی ساڑھے سات کروڑ ہے (اگرچہ قابلِ اعتبار گنتی مشکل ہے)۔ جرمنی، سپین اور فرانس کو ملایا جائے تو بھی ان کا رقبہ کانگو سے کم ہو گا۔ اس میں کانگو کا جنگل ہے جو دنیا میں ایمازون کے بعد سے بعد دوسرا بڑا جنگل ہے۔
یہاں پر دو سو سے زیادہ اقوام بستی ہیں۔ سب سے بڑی قوم بانتو ہے۔ سینکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ فرنچ قومی زبان ہے جو کہ ملک میں رابطے کا کام کرتی ہے۔ یہ علاقہ 1908 سے 1960 تک بلجیئم کی کالونی رہا تھا۔ اور اس سے پہلے بلجیئم کے بادشاہ نے اسے ذاتی جاگیر کے طور پر استعمال کیا تھا۔ کالونیل دور میں دنیا میں کسی بھی آبادی کا اس سے زیادہ برا استحصال نہیں ہوا جو شاہ  لیوپولڈ نے کیا تھا۔ اس کے قدرتی وسائل کو ذاتی طور پر امیر ہونے کے لئے استعمال کیا۔ اور ان کی بے رحمی اور ظالمانہ استحصال کے آگے باقی کسی بھی جگہ کا دور ماند پڑ جاتا ہے۔ اس میں کسی بھی طرح کا انفراسٹرکچر بنانے کی یا یہاں پر رہنے والوں کی مدد کا کوئی خیال نہیں تھا۔ جب بلجیم یہ علاقہ 1960 میں چھوڑ کر گیا تو پیچھے رہ جانے والے ملک بدحالی کا نشان تھا۔
اور پھر فورا ہی خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ دنیا میں سرد جنگ کا دور تھا۔ اس نے خانہ جنگی کو مہمیز دی۔ دارالحکومت کنشاسا میں بیٹھی حکومت نے اپنی سمت امریکہ کی طرف کر لی۔ پڑوس کے انگولا میں خانہ جنگی جاری تھی۔ اس کی حکومت سوویت حمایت یافتہ تھی۔ باغیوں کی مدد کانگو نے کی۔ یہاں پر سینکڑوں ملین ڈالر کے ہتھیار دونوں اطراف سے آنے لگے۔
جب سرد جنگ ختم ہوئی تو ساتھ ہی عالمی طاقتوں کی اس علاقے سے دلچسپی بھی۔ اس کا نام زائرے تھا۔ ملک چلتا رہا۔ معدنی وسائل کی امارت اسے سہرا دیے ہوئے تھی۔ گریٹ رِفٹ ویلی جنوبی کانگو میں خم کھاتی ہے اور یہاں پر کوبالٹ، ہیرے، سونا، چاندی، جست، کوئلہ، مینگنیز، اور دوسرے معدنیات بڑی مقدار میں ہیں۔ خاص طور پر کاٹانگا کے صوبے میں۔
شاہ لیوپولڈ کے دنوں میں دنیا کو یہاں کے ربڑ کی ضرورت تھی۔ گاڑیوں کی صنعت زوروں پر تھی۔ اب چین یہاں کی پچاس فیصد سے زیادہ برآمدات خریدتا ہے۔ لیکن یہاں کی آبادی سخت غربت میں رہتی ہے۔ انسانی وسائل کی ڈویلپمنٹ میں اقوامِ متحدہ کی 187 ممالک کی کی فہرست میں اس کا نمبر 186 ہے۔ (اس فہرست کے آخری اٹھارہ ممالک میں سے تمام افریقی ہیں)۔
چونکہ یہ اتنا بڑا ملک ہے اور اتنے وسائل رکھتا ہے تو ہر کسی کی توجہ کھینچتا ہے۔ اور چونکہ یہاں پر مضبوط مرکزی حکومت اور کوئی اتھارٹی نہیں تو یہ ملک اس توجہ سے کچھ حاصل نہیں کر پاتا۔
کانگو کے نو ہمسائے ہیں۔ اور ان سب کا کانگو کے مسائل میں اپنا اپنا کردار ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ کانگو کی جنگوں کو Africa’s world war کہا جاتا ہے۔
اس کے جنوب میں انگولا ہے۔ شمال میں ری پبلک آف کانگو اور سنٹرل افریقن ری پبلک ہیں۔ مشرق میں یوگنڈا، روانڈا، برونڈی، تنزانیہ اور زیمبیا ہیں۔ جنگ کی جڑیں دہائیوں پرانی ہیں۔ اور سب سے برا وقت وہ تھا جب 1994 میں روانڈا کا قتل عام ہوا تھا۔
اس قتل عام کے بعد بچنے والے ٹوٹسی اور معتدل ہوٹو نے ملکر روانڈا میں حکومت بنائی۔ جبکہ انتہاپسند ہوٹو ملیشیا (Interahamwe) سرحد پار کر کے کانگو چلی گئی۔ یہاں پر اپنا بیس بنا کر روانڈا میں حملے کرنے لگے۔ انہوں نے کانگو میں فوج کے کچھ لوگوں کے ساتھ ملکر یہاں کی ٹوٹسی آبادی میں بھی دہشت مچانا شروع کر دی جو سرحدی علاقے کے قریب رہتے تھے۔ اب روانڈا اور یوگینڈا کی آرمی میدان میں کود پڑیں۔ ان کو برونڈی اور اریٹیریا کی حمایت بھی حاصل تھی۔ یہ کانگو کی سرزمین میں داخل ہو گئے۔ یہاں پر انتہاپسند گروہ پر حملہ کیا اور ساتھ کانگو کی فوج کو بھی الجھا لیا۔ پھر کانگو کی حکومت الٹ دی۔
ان قابض افواج نے ملک کے بہت سے قدرتی وسائل پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ خاص طور پر روانڈا نے جس نے ٹنوں کولٹان (جو موبائل فون اور کمپیوٹر چپ بنانے میں کام آتا ہے) اپنے ملک بھیجا۔
لیکن حکومتی فورس نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ انگولا، نمیبیا اور زمبابوے سے اتحاد بنایا اور لڑتے رہے۔ پورا ملک میدان جنگ بن گیا جس میں بیس سے زیادہ فورسز ایک دوسرے سے دست و پا تھیں۔
ان جنگوں میں براہ راست مرنے والے کم تھے۔ ان کی وجہ سے لائی گئی بھوک اور بیماری سے زیادہ تھے۔ اور ان میں سے سب سے بڑی تعداد پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تھی۔
حالیہ برسوں میں جنگ کی شدت کم ہو چکی ہے۔ یہاں پر امن قائم رکنے کے لئے اقوام متحدہ کا بڑا مشن ہے۔ اور کوشش اس بات کی ہے کہ مزید قتل و غارت گری سے بچا جا سکے۔
افریقہ کی خوش قسمتی اور بدقسمتی یہ ہے کہ یہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ حالیہ وقتوں میں یہاں کے ممالک کو ان کے فوائد ملنا شروع ہوئے ہیں۔ اور اب باہر سے آنے والے لوٹ لینے کے بجائے سرمایہ کاری کا طریقہ اپنا رہے ہیں۔ لیکن عام افریقی ابھی بھی اچھے حال میں نہیں۔
(جاری ہے)