Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (32) ۔ افریقہ ۔ ممالک

آج کے افریقہ میں 56 ممالک ہیں۔ بیسویں صدی کے وسط میں یہاں پر “تبدیلی کی ہوائیں” چلنے لگیں۔ یہ آزادی کی تحریکیں تھیں۔ جو لفظ نقشوں پر لکھے ...


آج کے افریقہ میں 56 ممالک ہیں۔ بیسویں صدی کے وسط میں یہاں پر “تبدیلی کی ہوائیں” چلنے لگیں۔ یہ آزادی کی تحریکیں تھیں۔ جو لفظ نقشوں پر لکھے گئے تھے، ان میں سے کچھ تبدیل ہوئے۔ مثال کے طور پر، رہوڈشیا اب زمبابوے ہے۔ گولڈ کوسٹ کا نام گھانا ہے جبکہ اپر وولٹا کو اب برکینا فاسو کہتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر سرحدیں برقرار رہیں ہیں۔
سوڈان، صومالیہ، کینیا، کانگو، نائیجیریا، مالی اور دوسرے ممالک میں ہونے والے نسلی فسادات اس وجہ سے ہیں کہ یورپی نقشوں کے جغرافیہ کا افریقہ کی ڈیموگرافک حقیقت سے تعلق نہیں تھا۔
یہاں پر لڑائیاں پرانی ہیں۔ مثلاً، زولو اور کوسا کے قدیم جھگڑے یورپیوں کی آمد سے قبل بھی تھے۔ لیکن کالونیل طاقتوں کی طرف سے جو سرحدیں یہاں کھینچی گئیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو مصنوعی سٹرکچر کے اندر حل کرنا ہے جو nation state کا یورپی تصور ہے۔ جدید خانہ جنگیوں کی ایک جزوی وجہ یہ ہے کہ الگ متحارب اقوام کو ایک ملک کے اندر بند کر دیا گیا اور بتا دیا گیا کہ وہ اب ایک قوم ہیں۔ جب یورپی نکل گئے تو اس ملک کے اندر جو قوم آئی، اس کے غلبے کی کوشش نے خانہ جنگی چھیڑ دی۔
اس کی ایک مثال لیبیا ہے۔ اس کی تخلیق چند دہائیاں پہلے ہی کی گئی۔ یہ اپنے پر پڑنے والے پہلے پریشر کے نتیجے میں تین الگ جغرافیائی حصوں میں بٹ گیا۔ مغرب میں یونان کے وقتوں میں ٹریپولیٹانیا ہوا کرتا تھا۔ (یونانی میں tripolis کا مطلب تین شہر تھا جو کہ بعد میں ایک دوسرے میں مدغم ہو گئی اور Tripoli بنا)۔ اس کے مشرق کا علاقہ ہے جس کا مرکز بن غازی کا شہر ہے۔ اور یہ چاڈ تک پھیلا ہوا ہے۔ یونانی اور رومی وقتوں میں اسے سائیرونیکا کہا جاتا تھا۔ عرب اسے برقہ کہتے ہیں۔ جبکہ ان دونوں کے جنوب مغرب میں فزان کا علاقہ ہے۔
ٹریپولیٹانیا کا تعلق تاریخی طور پر جنوب اور جنوب مغرب سے رہا ہے۔ یہ جنوبی یورپی ہمسائیوں سے تجارت کرتا رہا ہے۔ برقہ کا مشرق میں مصر اور عرب سے رہا ہے۔ بن غازی کے ساحل سے سمندر کی لہریں بھی قدرتی طور پر مشرق کی طرف لے کر جاتی ہیں۔ فزان روایتی طور پر خانہ بدوشوں کی زمین رہا ہے جن میں باقی دونوں علاقوں سے بہت کم ہی کچھ مشترک ہے۔
صدیوں تک ایسا ہی رہا۔ یونانی، رومی اور ترک یہاں حکومت کرتے رہے۔ جب یورپیوں نے اس کو چھوڑا تو “لیبیا” کے تصور میں بنیادی طور پر ہی دراڑیں تھیں۔ یہاں کے لوگ “لیبیا” کے تصور تلے متحد نہیں ہو سکے۔ چھ مارچ 2012 کو مشرق میں پرانے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے احمد زبیر الشریف نے برقہ کی آزاد امارات کا اعلان کر دیا۔ یہ تو شاید پائیدار ریاست نہیں ہو گی لیکن یہ مثال بتاتی ہے کہ یہاں پر لوگوں کی قومی شناخت کمزور ہے۔ اور یہ ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
(جاری ہے)