Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (31) ۔ افریقہ ۔ تاریخ

افریقہ انسانیت کے ابتدا کا مقام ہے۔ یہاں سے نکل کر انسان دنیا بھر میں پھیلے۔ مشرقِ وسطی اور آگے تک پہنچے۔ آوارہ گردی ترک کی، زراعت شروع کی...


افریقہ انسانیت کے ابتدا کا مقام ہے۔ یہاں سے نکل کر انسان دنیا بھر میں پھیلے۔ مشرقِ وسطی اور آگے تک پہنچے۔ آوارہ گردی ترک کی، زراعت شروع کی، آبادیاں بنائیں، دیہات اور شہر بنے۔ تہذیب بسی۔
لیکن انسانیت کی اپنی جائے پیدائش میں ایسے پودے جنہیں سدھایا جا سکے، کم تھے۔ اور جانور تو اور بھی کم۔ جنگل، دلدلیں، صحرا، کھڑی چٹانیں تھیں۔ یہ چاول یا گندم اگانے یا بکریوں کے ریوڑ پالنے کی جگہیں نہیں تھیں۔ افریقہ کے گینڈے، بارہ سنگھے، زرافے اور ہرن سدھائے جانے سے انکاری تھے۔ سامان کھینچنے کے لئے بے کار تھے۔ جیرڈ ڈائمنڈ لکھتے ہیں، “تاریخ بہت مختلف ہوتی اگر افریقہ سے افواج نکلتیں جو پالتو زرافوں کے گوشت پر پلی ہوتیں۔ گینڈوں پر سوار حملہ آوروں کی لہریں یورپ پر چھا جاتیں جو کہ بکری کے گوشت کھا کر مریل سے گھوڑوں پر ان سے لڑنے آئے ہوتے”۔
افریقہ کی کہانی میں ایک اور فیکٹر ہے جو اسے آج بھی پیچھے رکھتا ہے۔ یہ بیماریاں ہیں۔ جیسا کہ زرد بخار اور ملیریا۔ گرم موسم اور صحت کی ناقص سہولیات اور رہنے کے غیرمعیاری جگہوں کی وجہ سے صحتِ عامہ بڑا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ برصغیر یا جنوبی امریکہ میں بھی ہے لیکن زیریں افریقہ میں یہ بہت برا ہے۔ ایڈز تباہی مچا چکی ہے۔ مچھر اور زی زی مکھی مسائل کا باعث ہے۔
براعظم کے دریا بھی مسئلہ پیدا کرتے ہیں۔ پہاڑوں سے سمندر تک پہنچتے ہوئے یہ یکساں ڈھلوان نہیں رکھتے بلکہ آبشاروں کی بہتات ہے جس وجہ سے ان میں کشتیاں چلانا مشکل ہے۔ مثال کے طور پر دریائے زمبیزی افریقہ کا چوتھا لمبا دریا ہے جو 1700 میل بہتا ہے۔ سیاحوں میں مقبول ہے۔ یہاں پر تیز بہتا سفید پانی خوبصورت ہے اور وکٹوریا آبشار قدرت کا شاہکار ہے۔ لیکن تجارتی راستے کے لئے یہ دریا کارآمد نہیں۔ یہ چھ ممالک سے بہتا ہے۔ اس کے صرف چند حصے ہیں جہاں پر چھوٹی کشتیاں چلائی جا سکتی ہیں۔
یورپ کے برعکس یہ دریا تجارت میں معاون نہیں اور اس کا اثر یہاں کی معاشی ترقی پر پڑا ہے۔ یہاں کے دیگر عظیم دریا، دریائے نیل، دریائے کانگو، دریائے نائیجر وغیرہ ایک دوسرے سے نہیں ملتے اور اس نے لوگوں کو اپنے علاقوں میں تنہا رکھا ہے۔ اور اس کے تہذیبی اثرات ہیں،
جہاں پر روس، امریکہ اور چین کے بڑے علاقوں میں ایک ہی زبان بولی جاتی ہے، وہاں افریقہ میں ہزاروں زبانیں ہیں اور کوئی کلچر بڑے علاقے پر حاوی نہیں ہو پایا۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ صحارا، بحرہند اور بحراوقیانوس میں گھرے اس براعظم کا باقی دنیا سے رابطہ آسان نہیں۔ ہزاروں سال تک باقی دنیا کے آئیڈیاز اور ٹیکنالوجی کا سب صحارا کے علاقے سے تبادلہ کم ہوا ہے۔
اس کے باوجود، کئی افریقی سلطنتیں چھٹی صدی کے بعد ابھریں۔ مالی کی سلطنت جو کہ تیرہویں سے سولہویں صدی تک رہی۔ گریٹ زمبابوے جو کہ گیارہویں سے پندرہویں صدی کے درمیان رہا۔ لیکن یہ سلطنتیں علاقائی طور پر محدود رہیں۔ جغرافیائی رکاوٹیں ٹیکنالوجی ڈویلپ ہونے کے لئے بھی رکاوٹ رہیں۔ اور جب باہر سے دنیا یہاں پہنچی تو افریقہ میں زیادہ تر جگہوں پر ابھی کاغذ یا لکھائی، بارود یا پہیہ نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشرق وسطی اور بحیرہ روم کے تاجر صحارا میں دو ہزار سال سے تجارت کرتے رہے تھے۔ اور یہ ممکن کرنے کی وجہ جو ٹیکنالوجی تھی، وہ اونٹ کا سدھائے جانا تھا۔ لیکن اصل آمد ساتویں صدی کی عرب فتوحات کے بعد شروع ہوئی۔ نویں صدی تک صحارا پار کیا جا چکا تھا۔ اور گیارہویں صدی میں جنوب میں نائیجیریا میں قدم جمائے جا چکے تھے۔
عرب مشرقی ساحل سے بھی یہاں پہنچے تھے۔ زنجبار اور دارالسلام میں آبادیاں قائم کر چکے تھے جو کہ آج کے تنزانیہ کا حصہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب یورپی پندرہویں صدی میں یہاں پر آئے تو قدرتی بندرگاہوں کی کمی محسوس کی۔ یورپ اور شمالی امریکہ میں سمندر اور زمین کا ملاپ کٹی پھٹی لکیروں کی صورت میں ہے اور اس سے قدرتی گہری بندرگاہیں بن جاتی ہیں۔ لیکن افریقہ میں یہ سیدھی لکیر میں ہے۔
اور ایک مرتبہ ساحل پر اتر جانے کے بعد اندر جانے میں مشکل ہے۔ موسم، بیماری اور ایسے دریا نہ ہونا جن پر سفر کیا جا سکے ۔۔۔۔ سو میل اندر تک جانا بھی چیلنج تھا۔
عرب اور پھر یورپی اپنے ساتھ نئی ٹیکنالوجی لائے اور یہاں سے جو بھی قیمتی شے تھے، وہ لے گئے۔ یہ قدرتی وسائل تھے اور لوگ تھے۔
غلامی قدیم ہے۔ لیکن عربوں نے جو نئی تکنیک شروع کی، وہ افریقہ کے قبائل کے سرداروں کو غلاموں کے ٹھیکے دینا تھا۔ یہ سردار غلاموں کو ساحل تک ڈلیور کر دیتے تھے۔ پندرہویں اور سولہویں صدی میں لاکھوں افریقہ (زیادہ تر سوڈان کے علاقے سے) استنبول، قاہرہ، دمشق اور دوسرے شہروں تک پہنچے۔
یورپیوں نے بھی یہی کیا۔ اور ان کی اشتہا عربوں اور ترکوں سے زیادہ بڑی تھی اور لوگوں سے سلوک زیادہ برا تھا۔ یہ غلام مغربی ساحل سے لے جائے گئے۔   
لندن، پیرس، برسلز اور لسبن کے دارالحکومتوں میں یورپی افریقہ کے جغرافیہ کے نقشے بنے۔ ان پر لکیریں کھینچی گئیں۔ ان کے درمیان میں الفاظ لکھے گئے۔ جیسا کہ مڈل کانگو یا اپر وولٹا۔ اور ان کا ممالک کہہ دیا گیا۔ یہ لکیریں اس بنیاد پر تھیں کہ کسی طاقت کے مہم جو، ملٹری فورس اور کاروباری کہاں تک پہنچے تھے۔ ان لکیروں کا کوئی تعلق اس براعظم میں رہنے والوں سے نہیں تھا کہ وہ خود کیسے منظم تھے۔ کئی افریقی اب جزوی طور پر یورپیوں کے قائم کردہ سیاسی جغرافیہ کے قیدی ہیں۔ اور قدرتی رکاوٹوں کے بھی۔ اور یہاں سے نئی جدید دنیا بنا رہے ہیں۔ اور کئی جگہوں پر جاندار معیشت بھی۔

(جاری ہے)