Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (29) ۔ مغربی یورپ ۔ یورپی یونین

سن 1951 میں چھ ممالک نے European coal and steel community شروع کی تھی۔ یہ بعد میں جا کر اٹھائیس ممالک پر مشتمل یورپی یونین میں تبدیل ہوئی۔ ل...


سن 1951 میں چھ ممالک نے European coal and steel community شروع کی تھی۔ یہ بعد میں جا کر اٹھائیس ممالک پر مشتمل یورپی یونین میں تبدیل ہوئی۔ لیکن جب پہلا بڑا مالیاتی بحران اس یونین کو ٹکرایا تو اس کے بندھن ڈھیلے پڑ گئے۔
اس یونین کے انیس ممالک نے ایک کرنسی اپنائی جو کہ یورو ہے۔ 1999 میں یورو کا آغاز ہوا۔ ان تمام ممالک میں قرض، بے روزگاری، مہنگائی جیسے معاشی اعشاریے ایک حد میں ہونے تھے تا کہ یہ کرنسی کام کر سکے۔ مسئلہ یہ تھا کہ کچھ ممبران، جیسا کہ گریس، نے اپنی اعداد و شمار غلط دکھائے تھے۔ لیکن یورو صرف ایک کرنسی نہیں تھی بلکہ ایک نظریہ بھی تھا۔ اس لئے باقی ممبران نے آنکھیں بند رکھیں۔
یورو زون کے ممالک نے خود کو معاشی رشتے میں باندھ لیا لیکن جب بحران کے وقت میں امیر ممالک کو غریبوں کی مدد کرنا پڑی تو تلخ جھگڑے شروع ہو گئے۔ اور یہ ایک دوسرے پر ابھی بھی پلیٹیں پھینک رہے ہیں۔
یورپ کے گھر کے شگاف اس کے جغرافیے کے تھے اور ہم آہنگ متحد یونین کے خواب اب الٹے پاؤں جا رہے ہیں۔
جرمنی “اچھا یورپی” رہنے کا مصمم ارادہ بنائے ہوئے ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اگر یونین بکھری تو جرمنی کے پرانے خوف واپس آ سکتے ہیں۔ اس کی آٹھ کروڑ آبادی ہے اور دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت ہے۔ یورپ کی ناکامی جرمنی کے لئے بڑا دھچکا ہو گی۔
جرمنی خود نیا ملک ہے جس کی عمر صرف ڈیڑھ سو سال ہے۔ لیکن یہ یورپ کی معاشی طاقت ہے۔ جب یہ بولتا ہے تو سارا برِاعظم سنتا ہے۔ لیکن جب معاملہ عالمی خارجہ امور کا ہو تو کئی بار یہ خاموشی کو ترجیح دیتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کا سایہ ابھی تک جرمنی سے نہیں چھٹا اور یہ ڈنڈا اٹھانے سے خائف ہے۔ یوکرین کے معاملے میں بھی اس نے روس پر تنقید تو کی ہے لیکن برطانیہ کے مقابلے میں دھیما رہاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یورپ کی زمین سے کٹا ہوا جزیرہ برطانیہ ہے۔ جغرافیے کے لحاظ سے برٹش اچھی جگہ پر ہیں۔ اچھی زمین، اچھے دریا، سمندروں تک بہترین رسائی، مچھلیوں کے ذخائر، یورپ سے اتنے قریب کہ تجارت آسانی سے ہو سکے لیکن اتنے فاصلے پر کہ زمینی فوج یہاں نہ آ سکے۔
جنگ عظیم میں اس نے بڑے نقصان اٹھائے لیکن اس سے پہلے ہونے والی یورپی جنگوں، انقلابوں اور تبدیلیوں سے محفوظ رہے ہیں۔
ایک تھیوری یہ ہے کہ یہاں کی سیکورٹی وہ وجہ ہے کہ یہاں آمریت جلد ختم ہوئی۔ یہاں “مضبوط راہنما” کی ضرورت نہیں رہی۔ میگنا کارٹا (1215) اور پرویژن آف آکسفورڈ (1258) اسے کسی بھی ملک سے پہلے جمہوریت تک لے گئے۔
بہرحال، ایسی تھیوری پر تو بحث ہو سکتی ہے لیکن اس بات کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس جزیرے کے اطار میں پانی وہ وجہ تھی کہ یہاں پر عظیم بحری فورس بنے۔ اور جب صنعتی انقلاب آیا تو اس کی مدد سے برطانیہ کے پاس موقع آیا کہ وہ عالمی سلطنت قائم کر سکے۔ یہ بڑا جزیرہ ہے لیکن یورپ کا سب سے بڑا ملک نہیں ہے۔ اس لئے اٹھارہویں سے بیسویں صدی تک اس کا دنیا میں پھیلاؤ غیرمعمولی کامیابی تھی۔
سمندر میں اس کی جگہ اسے ابھی بھی کئی سٹریٹجک فوائد دیتی ہے۔ عالمی سمندری راستوں کا چوک پوائنٹ اس کے پاس ہے جو کہ GIUK gap ہے۔ برطانیہ کی بحریہ کی طاقت اب اپنے شاندار ماضی جیسی تو نہیں رہی اور اس کا کنٹرول ڈھیلا پڑ گیا ہے لیکن اسے پھر بھی کسی جنگ کی صورت میں برطانیہ کو اپنی جگہ کا فائدہ ہو گا۔
برطانیہ نے یورپی یونین میں بہت فعال کردار ادا کیا تھا۔ اینٹی یورپی یونین جذبات کی دو وجوہات تھیں۔ خودمختاری اور تارکینِ وطن۔ یورپی یونین کے قوانین اس کے ممبران کو ماننا پڑتے ہیں خواہ انہیں پسند نہ ہوں۔ اور انسانی حقوق سے متعلق کچھ قوانین (جیسا کہ جلا وطن کئے جانے کی ممانعت) برٹش کو پسند نہیں رہے۔ دوسرا یہ کہ ایشیا اور افریقہ سے آنے والے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کی پسندیدہ منزل برطانیہ رہی ہے اور یورپ کے قوانین کی وجہ سے یہ برطانیہ پہنچتے رہے ہیں۔
جب 2016 میں برطانوی عوام کو موقع ملا تو انہوں نے یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرنے کے حق میں رائے دے دی۔ برطانیہ کی یونین سے یکطرفہ علیحدگی یونین کی کمزوری کی بڑی مثال تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یورپ کی روایتی سفید فام آبادی اب عمررسیدہ ہو رہی ہے۔ کام کرنے کے لئے بیرونِ ملک سے آنے والوں کی وجہ سے اب براعظم کا کلچر اور رنگ بدل رہا ہے۔ اور اس کے اثرات اس کی سیاست پر ہیں۔ ایک طرف باہر سے آنے والے کلچر کو قبول کرنے کا پریشر ہے اور اس کے ردعمل میں دائیں بازو کے سیاست دانوں کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔
خواتین کے حقوق،، آزادی اظہار کی حدود اور کئی دوسرے ایشو ہیں جن پر نئی بحث دوبارہ کھل رہی ہے۔
ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں کہ یورپی یونین کا تجربہ ناکام ہو جائے اور یورپ واپس آزاد ممالک کی طرف چلا جائے جس میں سے ہر کوئی اپنے اتحاد تلاش کرے۔
اور اس میں زیادہ مشکل میں فرانس ہے۔ اس نے جرمنی کو یورپی یونین میں باندھا تھا۔ لیکن پھر مشرقی اور مغربی جرمنی متحد ہو گئے اور فرانس ان کا چھوٹا پارٹنر بن گیا۔ اور اس مسئلے کا پیرس کے پاس حل نہیں۔ یا تو فرانس قبول کر لے کہ جرمنی زیادہ بااثر رہے گا لیکن پھر جرمن قیادت کو قبول کرنے کا مطلب اس کی اپنی حیثیت کو کمزور کرتا ہے۔
فرانس اپنے آپ میں طاقتور ملک ہے۔ نیوکلئیر طاقت جس کے دنیا بھر میں علاقے ہیں۔ ائیرکرافٹ کیرئیر ہیں۔ مضبوط فوج ہے۔ لیکن دنیا بھر میں یہ دیکھ اس لئے سکتا ہے کیونکہ اس کی مشرقی سرحد (جرمنی سے) محفوظ ہے۔
اس وقت روس کا خوف یورپی یونین کو متحد رکھے ہوئے ہے۔
جب دوسری جنگِ عظیم ختم ہوئی تھی تو یورپی ممالک نے اپنے عسکری بجٹ کم کر دئے تھے۔ افواج میں تخفیف کر دی تھی۔ روس کی 2008 میں جارجیا پر فوج کشی یورپ کے لئے بڑی سرپرائز تھی۔
روسی باقاعدگی سے اپنے جنگی طیاروں سے یورپی فضائییہ کے دفاعی نظام ٹیسٹ کرتے ہیں، اوسیشیا، ابخازیا، کریمیا، ٹرانسنیٹریا میں پیر پکڑ چکے ہیں، بالٹک میں روسیوں کے ساتھ روابط برقرار رکھتے ہیں، کالننگراڈ میں ان کا علاقہ ہے اور اب یوکرین کے ساتھ باقاعدہ جنگ میں ہیں۔
یورپی اب دفاعی بجٹ کی پالیسیوں کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر مجبور ہیں لیکن ایک مسئلہ ہے۔ ان کے پاس اس کام کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ اور انہیں مشکل فیصلوں کا سامنا ہے۔ پرانے دشمن تو ختم ہو چکے ہیں۔ لیکن جغرافیہ تو وہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی کتاب Paradise and Power میں مورخ رابرٹ کاگان لکھتے ہیں کہ مغربی یورپی جنت میں رہ رہے ہیں لیکن جب پاور کی دنیا میں جنت کے اصول نہیں چلتے۔ جب ہم جنت کو دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ ہم پرانے دور میں کبھی واپس نہیں جائیں گے۔ لیکن تاریخ کا سبق کچھ اور ہے۔ چند دہائیوں میں دنیا بدل جاتی ہے۔
ہلمٹ کوہل جرمنی کے کامیاب حکمران تھے جو 1998 میں اقتدار سے علیحدہ ہوئے۔ وہ آخری جرمن لیڈر ہیں جنہوں نے جنگ عظیم دیکھی ہے۔ وہ 2012 میں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ جنگ عظیم کی وجہ سے ہم نے ایک دوسرے پر اعتبار کرنا سیکھا تھا کیونکہ اس کا متبادل خوفناک تھا۔ سیاسی لیڈروں کی نئی نسل اس سے نہیں گزری۔ “جو اس پر سوال کرتے ہیں کہ آخر اتحاد سے کیا فائدہ ہے۔ اس سے آخر ملتا کیا ہے؟ 65 سال کے امن اور ترقی کے دور کی عادت ہو جانے کے بعد آج کے مسائل اور مشکلات کے سامنے اس کا جواب آج کی نسل کو اتنا پرکشش نہیں لگتا لیکن یہ انتہائی اہم ہے۔ اس سے “امن” ملتا ہے”۔
(جاری ہے)