Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

جغرافیہ کے قیدی (24) ۔ امریکہ ۔ خاص فضل؟

امریکہ کی جاپان کے بارے میں یہ پالیسی ہے کہ وہ اسے یقین دلاتا ہے کہ اس کے چین سے مفادات کی حفاظت کرے گا۔ اور اوکیناوا میں اپنی بیس کھلی رکھے...


امریکہ کی جاپان کے بارے میں یہ پالیسی ہے کہ وہ اسے یقین دلاتا ہے کہ اس کے چین سے مفادات کی حفاظت کرے گا۔ اور اوکیناوا میں اپنی بیس کھلی رکھے گا۔ جاپان کی سیلف ڈیفنس فورس کی مدد کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ اس پر اتنی پابندی رکھے گا کہ یہ بحراکاہل میں امریکہ کو چیلنج کرنے کی صلاحیت حاصل نہ کرے۔
اس خطے میں پیچیدہ سفارتی معمے میں اہم ممالک انڈونیشیا، ملیشیا اور سنگاپور ہیں۔ یہ آبنائے ملاکا کی تنگ راہداری پر ہیں۔ ہر روز یہاں سے 12 ملین بیرل تیل گزر کر چین اور دوسرے ملکوں کو جاتا ہے اور چین کی تیل کی پیاس بڑھ رہی ہے۔ جب تک یہ ممالک پروامریکہ ہیں تو امریکہ کے پاس اہم سبقت ہے۔
دوسری طرف، چین کو فائدہ یہ ہے کہ یہ سیاسی نظریہ نہیں رکھتا۔ اس کو نہ ہی کمیونزم پھیلانے میں کوئی دلچسپی ہے، نہ ہی یہ ممالک پر قبضہ کرنے کی کوئی خواہش رکھتا ہے۔ چین اور امریکہ آپس میں کسی جھگڑے کے خواہاں نہیں۔ چین کے لئے یہ قابلِ قبول ہے کہ جن بحری گزرگاہوں سے اس کا تجارتی مال گزرتا ہے، وہ امریکہ کی نگرانی میں رہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ اس بات کو طے کر دینا چاہتا ہے کہ کنٹرول کی حد کہاں تک رہے۔
بحثیں ہوں گے، اور دونوں اطراف سے نیشنلزم سے لبریز تقاریر بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن دونوں اطراف سمجھوتے کرنے کو تیار ہوں گی۔ خطرہ صرف اس وقت ہے کہ اگر یہ دوسرے کو misread کر لیں۔
ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں آگ بھڑک سکتی ہے۔ چین اسے اپنا 23واں صوبہ کہتا ہے۔ جبکہ امریکہ کا تائیوان سے معاہدہ  ہے کہ اگر چین اس پر فوج لے آئے تو امریکہ کے خلاف اعلانِ جنگ ہو گا۔ دوسری طرف، چین کے لئے سرخ لکیر یہ ہو گی کہ تائیوان کو رسمی طور پر تسلیم کر لے یا پھر تائیوان باقاعدہ اعلانِ آزادی کر دے۔ لیکن فی الوقت ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہر کوئی سنبھل کر چل رہا ہے۔
چین کی بیرونی تیل اور گیس کی پیاس بڑھ رہی ہے اور امریکہ کی کم ہو رہی ہے۔ اور اس کا خارجہ پالیسی پر بڑا اثر ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ سمندر میں ڈرلنگ کر رہا ہے اور زیرِزمین fracking کر رہا ہے۔ اس نے توانائی میں خودکفالت 2020 میں حاصل کر لی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خلیجی ممالک سے تیل اور گیس کے بہاؤ کو یقینی بنانا اس کی ترجیح نہیں رہا۔ اس کے اس علاقے میں سٹریٹجک مفادات ضرور ہیں لیکن اہمیت پہلے سی نہیں۔ اور جس طرح امریکہ کی توجہ کم ہوئی ہے، اسی طرح اس خطے کے ممالک نئے اتحاد بنانے کی تلاش میں ہیں۔ چین اس کھیل میں اس وقت آ سکتا ہے اگر یہ گہرے پانیوں کی بحریہ بنا سکے اور اس سے زیادہ اہم کہ بوقتِ ضرورت اس کو استعمال کرنے کے لئے آمادگی بھی رکھتا ہو۔
امریکہ کا پانچواں بحری بیڑہ بحرین سے جانے والا نہیں ہے۔ لیکن اگر سعودی عرب، کویت، قطر اور امارات کے تیل کی ضرورت امریکی گاڑیاں چلانے کے لئے نہیں رہی تو امریکی عوام اور پارلیمان کسی وقت یہ پوچھ سکتے ہیں کہ “یہ یہاں کیوں ہے؟”۔
عرب اپنے ممالک میں انتہاپسندوں کے ہاتھوں تنگ ہو کر خود ان سے نپٹ رہے ہیں۔ واشنگٹن کا جمہوریت پھیلانے کا پراجیکٹ پہلے ہی ناکام ہو چکا ہے۔ امریکہ کی آبادی میں ہسپانوی اور ایشیائی تارکین وطن کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل میں دلچسپی بھی سرد ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خطہ امریکہ میں ہر لحاظ سے اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاطینی امریکہ میں پالیسی کی ترجیح پانامہ نہر کو رواں رکھنا ہو گا۔ اور بڑھتے برازیل پر نظر رکھنا ہو گا کہ یہ کیریبین سمندر میں مسئلہ نہ بنے۔ معاشی لحاظ سے اسے لاطینی امریکہ میں چین سے اثرورسوخ کی جنگ لڑنی ہو گی۔
افریقہ میں اثرورسوخ کی اس جنگ میں امریکہ چین سے پیچھے ہے۔ اور یہاں پر عسکری طور پر الجھنے کا خواہشمند بھی نہیں ہو گا کیونکہ اس کا بیرونی دنیا میں “قوم بنانے” کا تجربہ پِٹ چکا ہے۔
عراق، افغانستان وغیرہ میں امریکہ نے مقامی حالات، کلچر اور قبائل کا غلط اندازہ لگایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے چالیس سال سے یہ پیشگوئی کی جا رہی ہے کہ امریکہ کا زوال ناگزیر ہے۔ اس کی طاقت اب اپنے آخری دموں پر ہے۔ لیکن یہ پیشگوئی چالیس سال سے غلط نکلتی آ رہی ہے۔
اس وقت کی دنیا میں یہ کامیاب ترین ملک ہے۔ توانائی میں خودکفالت حاصل کر چکا ہے۔ بڑی معاشی طاقت ہے۔ ملٹری میں تحقیق کا فنڈ ہی اتنا ہے کہ تمام NATO ممالک کے دفاعی بجٹ کو جمع کر لیا جائے تو اس سے زیادہ ہے۔ یورپ اور جاپان کی طرح عمررسیدہ ہوتی آبادی کا مسئلہ نہیں۔ گیلپ کے سروے کے مطابق دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کے لئے رہنے کے لئے پہلی ترجیح یہ ملک ہے۔ شنگھائی یونیورسٹی کی جاری کردہ بہترین یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کے مطابق دنیا کی پہلی 20 یونیورسٹیوں میں سے 17 امریکہ میں ہیں۔
آج سے ایک صدی سے زیادہ قبل پروشیا کے حکمران اوٹو وون بسمارک نے کہا تھا کہ “خدا کا خاص فضل بے وقوفوں پر ہوتا ہے اور امریکہ پر”۔ ان کی بات ابھی بھی غلط نہیں لگتی۔
(جاری ہے)