Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

ذہانت (4) ۔ عالمی جنگ

سٹانسلاو پیٹروف روس کے ملٹری افسر تھے۔ ان کا کام نیوکلئیر حملوں کے خلاف بروقت وارننگ سسٹم کی نگرانی تھا۔ اگر کمپیوٹر کی طرف سے ایسا کچھ پکڑا...


سٹانسلاو پیٹروف روس کے ملٹری افسر تھے۔ ان کا کام نیوکلئیر حملوں کے خلاف بروقت وارننگ سسٹم کی نگرانی تھا۔ اگر کمپیوٹر کی طرف سے ایسا کچھ پکڑا جائے تو ان کا کام تھا کہ وہ فوری طور پر افسرانِ بالا کو مطلع کر دیں۔
پیٹروف 26 ستمبر 1983 کو ڈیوٹی پر تھے جب آدھی رات کے وقت سائرن بجنے لگے۔ یہ وہ لمحہ تھا جس سے ہر کوئی خوفزدہ تھا۔ سوویت سیٹلائیٹ نے بھانپ لیا تھا کہ دشمن کی طرف سے میزائل روس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سرد جنگ کے وقت میں ایسا ہونا ناممکن نہیں تھا۔ لیکن پیٹروف ٹھٹھک گئے۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ الگورتھم پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ اس نے صرف پانچ میزائل پکڑے تھے۔ یہ غیرمنطقی لگتا تھا۔ اگر امریکہ نے ایسا قدم کرنا ہو تو اتنی کم تعداد میزائل سے کرنے کی کوئی تک نہیں بن رہی تھی۔
 پیٹروف رک گئے۔ بڑے فیصلے کا بوجھ ان کے کاندھوں پر تھا۔ کیا افسرانِ بالا کو خبردار کر دیا جائے اور دنیا میں یقینی نیوکلیائی جنگ برپا کر دی جائے؟ یا پھر تمام پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انتظار کیا جائے۔ اور ہر گزرتے سیکنڈ کے ساتھ ان کے ملک کی قیادت کے پاس جوابی حملہ کرنے کے لئے وقت ضائع ہو رہا تھا۔
ہم سب کیلئے قسمت اچھی رہی کہ پیٹروف نے دوسرا انتخاب کیا۔ انہیں یقین تو نہیں تھا کہ الارم غلطی سے بجا تھا لیکن 23 منٹ گزر جانے کے بعد (جو کہ ان کے لئے انتہائی طویل وقت ہو گا) یہ واضح ہو چکا تھا کہ کوئی حملہ نہیں کیا گیا تھا۔ پیٹروف کا شک درست تھا۔ الگورتھم غلطی پر تھا۔
اگر یہ سسٹم خودکار ہوتا جس میں پیٹروف جیسے انسانی ذہانت کے پاس فیصلے کا اختیار نہ ہوتا تو تاریخ مختلف ہوتی۔ روس نے اپنے نیوکلئیر ہتھیار داغ دئے ہوتے جو کہ اس کے خیال میں جوابی حملہ ہوتا۔ اور ایک بڑے پیمانے کی جنگ چھڑ چکی ہوتی۔ پیٹروف کی طرف سے  کئے گئے ویٹو نے اس مہلک غلطی کو درست کر دیا۔
اور ان کے رک جانے کی وجہ تھی جو کہ ان کہی ہے۔ انسانوں پر اپنے فیصلوں کے نتائج کی ذمہ داری کا بوجھ ہوتا ہے۔ پیٹروف کا کہنا تھا کہ “مجھے اچھی طرح سے پتا تھا کہ اگر میں غلطی کر گیا تو یہ درست نہیں کی جا سکے گی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان زیادہ قابلِ اعتبار ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس کا جواب نفی میں ہے۔ پیٹروف نے اپنی رائے کو فوقیت دے کر درست فیصلہ کیا۔ لیکن تمام شواہد بتاتے ہیں کہ اکثر الگورتھم کے مقابلے میں اپنی رائے کو نظرانداز کر دینا درست ہوتا ہے۔
(جاری ہے)