Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

ذہانت (10) ۔ اشتہار

فرض کیجئے کہ میں پرتعیش سیروتفریح کی خدمات پہنچانے والی کمپنی ہوں۔ لوگ میری سائٹ پر آ کر رجسٹر کرتے ہیں اور میرے پاس برسوں سے ان کے ای میل ...


فرض کیجئے کہ میں پرتعیش سیروتفریح کی خدمات پہنچانے والی کمپنی ہوں۔ لوگ میری سائٹ پر آ کر رجسٹر کرتے ہیں اور میرے پاس برسوں سے ان کے ای میل ایڈریس اکٹھے ہو رہے ہیں۔ اگر مجھے یہ معلومات درکار ہے کہ لوگ کس قسم کی جگہ پر چھٹیاں گزارنا پسند کرتے ہیں تو میں یہ ای میل ایڈریس کسی ڈیٹا بروکر کے سپرد کر سکتا ہوں۔ یہ اپنے سسٹم میں ان ای میل ایڈریس کو دیکھ کر یہ اضافی معلومات مجھے  دے دیں گے اور اب جب آپ میری سائٹ پر آئیں گے تو میں آپ کی پسند کی جگہ کے ٹور اور ہوٹلوں کی معلومات پہلے ہی دکھا سکتا ہوں۔
اس کے علاوہ ایک اور طریقہ بھی ہے۔ فرض کیجئے کہ میں اپنی سائٹ پر دوسرے اشتہار دینے والوں کو جگہ دے دیتا ہوں۔ میں ڈیٹا بروکر سے رابطہ کرتا ہوں اور انہیں اپنے صارفین کی انفارمیشن دیتا ہوں۔ یہ بروکر دوسری کمپنیوں کو دیکھتے ہیں جو کہ اشتہار دینا چاہ رہی ہیں۔ فرض کیجئے کہ گنج کو روکنے کے لئے کریم بنانے والی کمپنی کی دلچسپی ایسے لوگوں میں ہے جو ایک خاص عمر کے مرد ہوں تو بروکر یہ کام کر دے گا اور اشتہار دکھانے کے عوض مجھے اور بروکر کو کچھ رقم مل جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور تیسرا طریقہ ہے کہ میں نئے صارفین کی تلاش میں ہوں جن کی عمر ساٹھ سال ہو، انہیں سفر کا شوق ہو، مذہبی رجحان رکھتے ہوں اور ان کے پاس خاطرخواہ آمدنی ہو تا کہ میں انہیں اپنا لگژری عمرہ پیکج بیچ سکوں۔
میں ڈیٹا بروکر کے پاس گیا۔ وہ اپنی ڈیٹابیس میں سے دیکھ کر ایسے لوگوں کی فہرست ڈھونڈ دے گا۔
فرض کیجئے کہ اس فہرست میں آپ کا نام بھی ہے۔ بروکر نے یہ ڈھونڈ لیا کہ آپ کونسی ویب سائٹس پر باقاعدگی سے جاتے ہیں۔ یہ آپ کا پسندیدہ اخبار ہو سکتا ہے، کھیلوں کی سائٹ ہو سکتی ہے یا سوشل میڈیا کی۔ جن سے اس بروکر کا تعلق بنا ہوا ہے۔ آپ خبریں پڑھنے ویب سائٹ پر آئے، بروکر نے آپ پر جھنڈا لگا دیا اور اشتہار آپ کو نظر آ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر ایک مسئلہ ہے۔ فرض کیجئے کہ آپ یہ اشتہار نہیں دیکھا چاہتے۔ عمرہ پیکج کے ساتھ تو مسئلہ نہ ہو لیکن ایسے اشتہار بھی ہو سکتے ہیں جو ذاتی زندگی میں زیادہ ہی مخل ہوں؟
جب ہائیڈی واٹرہاؤس کا حمل ضائع ہو گیا تو ان کے لئے یہ بڑا صدمہ تھا۔ انہوں نے اس بارے میں ہر قسم کی فہرست سے خود کو ہٹا لیا۔ لیکن جیسا کہ انہوں نے بتایا کہ اس بارے میں ان کو انٹرنیٹ پر ملنے والے اشتہارات کی بھرمار روکنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔
یہ سسٹم بے حس ہے تو اس سے غلط فائدہ اٹھانے والے بھی ہیں۔ ان لوگوں کو پرخطر اور مشکوک سرمایہ کاری کی طرف بلانا جو سادہ لوح ہوں۔ جو لوگ شوگر فری چیزیں خرید رہے ہوں، ان کو ذیابیطس کا مریض قرار دے کر انشورنس دینے سے انکار کر دینا۔ کسی کے نام کی بنیاد پر اسے کسی نسلی یا مذہبی گروہ سے تعلق بنانا اور اس گروہ سے تعلق کی بنا پر اسے stereotype کرنا۔ اس کی مثال گوگل کے اشتہاروں پر ہونے والی سٹڈی کی ہے جس میں اچھی اور پرکشش تنخواہ والی ملازمت والے اشتہاروں کو خواتین کو بہت کم بھیجا جا رہا تھا۔ یا سیاہ فام لگنے والے ناموں کو گرفتاری سے ضمانت والے وکیلوں کے اشتہار بھیجے جا رہے تھے۔
یہ صرف ڈیٹا بروکر تک محدود نہیں۔ گوگل، فیس بک، انسٹاگرام، ٹویٹر ایسے ہی کام کرتے ہیں۔ ان کی آمدنی کا بزنس ماڈل ٹھیک ٹارگٹ کر کے اشتہار بھیجنے (micro targeting) میں کامیابی ہے۔ لوگ ان سائٹس پر جا کر سپانسر کی گئی پوسٹ پڑھتے ہیں، ویڈیو چلاتے ہیں، فوٹو دیکھتے ہیں۔ جبکہ پسِ پردہ چلتے ہوئے خاموش الگورتھم انفارمیشن حاصل کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ ان کے لئے صارفین کے کئے گئے کلک اور ان کی عادات وہ جنس ہیں جن سے آمدن ہوتی ہے۔
 جرمنی کے صحافی سویا ایکرٹ اور ڈیٹا کے ماہر اینڈریاس ڈیوس نے اس پر تجربہ کیا کہ ڈیٹا سے کسی شخص کی شناخت کرنا کتنا مشکل ہے۔
ان کی ٹیم نے ایک ڈیٹا بروکر بنایا اور تیس لاکھ جرمن شہریوں کا ڈیٹا خریدا۔ یہ ڈیٹا گوگل کروم کے ایک پلگ ان سے اکٹھا ہوا تھا جس کو استعمال کرنے والوں نے اسے خود سے ڈاؤن لوڈ کیا تھا۔ بغیر اس کی آگاہی کہ یہ کیا ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے۔
اس میں ایک مہینے میں کسی شخص کی طرف سے استعمال کی جانے والی تمام ہسٹری تھی۔ اور یہ anonymous تھی۔ یعنی کسی شخص سے شناخت نہیں کی جا سکتی تھی۔ اچھی بات؟ نہیں۔ ٹیم نے بتایا کہ اس سے شخص کا پتا لگانا بہت آسانی سے ہو گیا۔ کئی بار اس ہسٹری میں ہی کچھ ایسا موجود تھا۔ مثال کے طور پر کچھ سوشل میڈیا کی سائٹس پر کسی شخص کی آئی ڈی اس URL کے اندر ہی تھی۔ یا کسی جگہ پر استعمال کرنے والے نے اپنا سایہ چھوڑ دیا تھا۔ مثلا یوٹیوب کی پبلک پلے لسٹ شئیر کرتے وقت۔ ٹیم نے آسانی سے اس ڈیٹا میں سے تقریباً ہر ایک کے اصل نام کا پتا لگا لیا۔
اس میں کئی معروف لوگ بھی تھے۔ ایک سیاستدان جو کہ اپنی بیماری کی ادویات ڈھونڈ رہے تھے۔ ایک پولیس افسر جنہوں نے گوگل ٹرانسلیٹ کو خفیہ دستاویز کا ترجمہ کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج جو اپنے بچوں کے ناموں کی تلاش میں تھے۔
 اس میں سے کچھ بھی غیرقانونی نہیں تھا۔ لیکن ایسی انفارمیشن جو کہ لوگ عام نہیں کرنا چاہتے، وہ کسی کے ہاتھ میں ہو تو وہ لوگوں کو بلیک میل کرنے یا شرمندہ کرنے کے کام ہو سکتی ہے۔
جب آپ کے بارے میں نجی اور حساس انفارمیشن آپ کے علم کے بغیر حاصل کی جا سکتی ہو تو پھر اس کو آپ کو manipulate کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ برطانیہ کی سیاسی کنسلٹنگ کمپنی نے کیا۔
(جاری ہے)