Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

پیالی میں طوفان (48) ۔ میکسیکو کا زلزلہ

انیس ستمبر 1985 کو میکسیکو سٹی نے ہلنا شروع کر دیا۔ یہاں سے ساڑھے تین سو کلومیٹر دور بحرالکاہل کے نیچے ٹیکٹانک پلیٹس نے ایک دوسرے سے رگڑ کھا...


انیس ستمبر 1985 کو میکسیکو سٹی نے ہلنا شروع کر دیا۔ یہاں سے ساڑھے تین سو کلومیٹر دور بحرالکاہل کے نیچے ٹیکٹانک پلیٹس نے ایک دوسرے سے رگڑ کھائی اور اس نے ریکٹر سکیل پر 8 کا زلزلہ پیدا کر دیا۔ میکسیکو شہر تین سے چار منٹ تک لرزتا رہا اور اس نے تباہی مچا دی۔ دس ہزار لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے اور شہر کی بہت سی عمارات زمین بوس ہو گئیں۔ واپس بحالی میں برسوں لگ گئے۔ انجیروں اور زلزلے کے ماہر کی ٹیم نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں لکھا کہ سب سے بھاری نقصان فریکونسی کے ظلم کی وجہ سے ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر چیز کی نیچرل فریکونسی ہے اور بڑی اشیا کی یہ کم ہوتی ہے۔ بھاری شے کو ہلانے کے لئے بڑا دھکا چاہیے۔ لیکن بلند عمارت بھی آہستہ جھول سکتی ہے اور یہ الٹے پنڈولم کی طرح ہوتا ہے۔ یہ نیچے سے جامد ہے جبکہ اوپر سے نہیں۔ تنگ اور بلند عمارت کو تیز ہوا جھلا سکتی ہے۔ اور اگر آپ بہت اونچی عمارت میں تیز ہوا کے وقت اوپر کی منزل میں ہیں تو اس کو محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ خوف زدہ کرنے والا احساس ہے اور آرکیٹکٹ اس کو ڈیزائن کرتے وقت مدِنظر رکھتے ہیں۔ اس کو ختم تو نہیں کیا جا سکتا لیکن کم کرنے کا ڈیزائن کیا جاتا ہے۔ اگر یہ محسوس ہو تو گھبرانے کی بات نہیں۔ عمارت ہوا سے نہیں گرتی۔ ہوا اس کو باقاعدہ ردھم کے طور پر جھولا نہیں دے سکتی۔ لیکن زلزلے کا جھٹکا زمین میں لہریں بھیجتا ہے جو زلزلے کے مرکز سے پھوٹتی ہیں۔ اگر اونچی عمارت اور زلزلے کا ملاپ ہو جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میکسیکو شہر پتھریلے بیسن پر جھیل کی تہہ کی تلچھٹ کے اوپر ہے۔ زلزلے کو مانیٹر کرنے والے آلات نے باقاعدہ لہریں دکھائیں جو کہ ایک ہی فریکونسی کی تھیں۔ عام طور پر زلزلے اس طرح نہیں ہوتے۔ یہ زیادہ پیچیدہ لہریں ہوتی ہیں۔ لیکن جھیل کی تلچھٹ کی جیولوجی نے اسے نیچرل فریکونسی دے دی تھی۔ اور اگر کوئی بھی لہر دو سیکنڈ سے زیادہ رہتی تو یہ اسے amplify کر دیتے۔ یہ پورا بیسن ایک میز بن گیا تھا جو ایک ہی فریکونسی پر لرز رہا تھا۔
اگرچہ یہ amplification خود میں ہی بری تھی۔ لیکن جب مخصوص نقصان کو دیکھا گیا تو انجینروں نے دریافت کیا کہ منہدم ہونے والی زیادہ تر عمارتیں وہ تھیں جو پانچ سے بیس منزلوں کے درمیان بلندی کی تھیں۔ جو عمارتیں اس سے زیادہ بلند تھیں یا پست تھیں (اور ایسی بہت سی تھیں)، ان کو بالکل بھی نقصان نہیں ہوا تھا۔ انہیں نے حساب لگایا کہ لرزنے کی نیچرل فریکونسی درمیانہ قد کی عمارتوں سے میچ کرتی تھی۔ جب ٹھیک فریکونسی کے طویل دھکے لگے تو یہ عمارتیں ویسے لرزنے لگیں جیسے tuning fork کرتا ہے اور پھر بچنے کا کوئی موقع نہ رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اس مسئلے کو آرکیٹکٹ سنجیدہ لیتے ہیں۔ اس کا تدارک کرنے کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ تائیوان میں Taipei 101 ایک وقت میں دنیا کی سب سے اونچی عمارت تھی (یہ اعزاز اس کے پاس 2010 تک رہا)۔ اس عمارت کا ایک سیکشن کھوکھلا ہے اور اس میں 660 ٹن وزنی سنہرا سفئیر پنڈولم لٹکایا گیا ہے۔ یہ خوبصورت بھی ہے اور عجیب بھی۔ لیکن اس کی وجہ کوئی جمالیاتی نہیں بلکہ عملی ہے۔ یہ عمارت کو زلزلے سے بچانے کیلئے ہے۔ اس کا نام tuned mass dampner ہے۔
تائیوان میں زلزلے آنا معمول ہے اور یہاں پر آئیڈیا یہ ہے کہ اگر زلزلہ آئے گا تو یہ پنڈولم اور عمارت مخالف سمت میں الگ طرح سے ہلیں گے۔ پہلے عمارت ایک سمت جھولے گی اور ساتھ سفئیر پنڈولم کو لے کر جائے گی۔ جب تک یہ پنڈولم اپنی انتہا تک پہنچے گا، عمارت دوسری سمت میں جھول رہی ہو گی اور واپس اسے کھینچے گی۔ یہ دونوں مخالف سمتوں میں رہیں گے اور نتیجہ یہ ہو گا کہ کل ملا کر جھولا کم ہو جائے گا۔ سفئیر پانچ فٹ تک جھول سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں عمارت کا ارتعاش چالیس فیصد کم ہو جائے گا۔
بہت اچھا ہو کہ عمارت بالکل نہ ہلے لیکن زلزلے عمارت کا ایکولیبریم ہلا دیتے ہیں اور اسے ہلنا ہی پڑتا ہے۔ اس کو تو آرکیٹکٹ نہیں روک سکتے لیکن اس کے سفر کو چھیڑ سکتے ہیں تا کہ ہونے والا نقصان ممکنہ حد تک کم ہو۔
عمارت میں رہنے والے اس کا انتظار کر سکتے ہیں جب توانائی ختم ہو جائے اور پرسکون سکوت واپس لوٹ آئے۔
(جاری ہے)