پہلی جنگِ عظیم کے آخر تک راکٹ کی ٹیکنالوجی اس نہج تک پہنچ چکی تھی کہ اس کو اگر لانچ کیا جائے تو عام طور پر یہ درست سمت میں جاتی تھی اور چلا...
پہلی جنگِ عظیم کے آخر تک راکٹ کی ٹیکنالوجی اس نہج تک پہنچ چکی تھی کہ اس کو اگر لانچ کیا جائے تو عام طور پر یہ درست سمت میں جاتی تھی اور چلانے والے کو مار نہیں دیتی تھی۔ (اگرچہ ایسی کامیابی بھی ہمیشہ نہیں ہوتی تھی)۔ اب اگلا سوال یہ تھا کہ اس کے ساتھ کرنا کیا ہے؟ عام طور پر موجدین کسی چیز کی ایجاد پہلے کر لیتے ہیں۔ اس کے عملی استعمال بعد میں پتا لگتے ہیں۔ اور اس وقت انسانی تخیل کی زرخیز زمین سے برآمد ہونے والا ایک جدید خیال آیا۔
کیوں نہ ڈاک کو راکٹ کے ذریعے بھیجا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یورپ میں راکٹ پر ڈاک کے پیچھے جو شخصیت تھی، وہ گیرہارڈ زکر تھے۔ اس نوجوان جرمن کو راکٹوں کا جنون تھا۔ ملٹری کو ان میں دلچسپی نہیں تھی۔ اور ان کے خیال میں اس کے ذریعے ڈاک بھیجنا وہ بڑا آئیڈیا تھا جس کی دنیا کو ضرورت تھی۔ ان کے ذریعے تیزرفتاری سے ڈاک بھیجی جا سکتی تھی۔
زکر برطانیہ آ گئے جہاں پر شوقین لوگوں کو اس سسٹم کی حمایت پر مائل کیا۔ ان سے فنڈنگ لی اور اپنا پہلا ٹیسٹ جولائی 1934 میں کرنے سکاٹ لینڈ چلے گئے۔ یہاں پر سکارپ کے جزیرے سے ڈاک کو ہیرس کے جزیرے تک بھیجنا تھا۔
اس راکٹ میں ایک میٹر کا سلنڈر تھا۔ اس کے اندر تانبے کی پتلی ٹیوب تھی جس کے پیچھے نوزل تھی۔ جبکہ اس میں دھماکے دار بارود پیک کیا گیا تھا۔ اندرونی ٹیوب اور بیرونی سلنڈر کے درمیان والے حصے میں خطوط ڈالے گئے۔ راکٹ کے سامنے کی ناک میں سپرنگ لگایا گیا تا کہ لینڈنگ میں آسانی ہو۔ راکٹ کا منہ اوپر کر کے اسے چھوڑ دیا جانا تھا۔ چند سیکنڈ تک اس کے پاؤڈر نے جلنا تھا جس سے اس نے فضا میں بلند ہو کر درمیان کی آبی گزرگاہ کو پار کر لینا تھا۔
زکر نے 1200 خطوط جمع کئے۔ اس کا نام ویسٹرن آئلز راکٹ پوسٹ رکھا۔ بی بی سی کے کیمرے اور متجسس مجمع کے آگے اس کو لانچ کئے جانا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لانچ کا بٹن دبایا گیا۔ دھماکے دار پاؤڈر کو آ گ لگی۔ اس نے تیزی سے جلتے ہوئے تانبے کی ٹیوب میں گیسوں کو گرم کر دیا۔ اور یہ راکٹ سے ٹکرانے لگیں اور اسے ہوا میں تیزی سے بلند کر دیا لیکن صرف دو سیکنڈ کے بعد ایک اونچی آواز آئی اور دھواں پھیل گیا جس کے پیچھے راکٹ چھپ گیا۔
جب دھواں صاف ہوا تو سینکڑوں خطوط زمین پر بکھرے پڑے تھے۔
گرم اور ہائی پریشر گیس کو کنٹرول کرنا مشکل ہے اور ان مالیکیولز نے کیس کو توڑ دیا تھا۔ زکر نے اس کا الزام explosive cartridge پر ڈالا اور اگلے تجربے کی تیاری شروع کر دی۔
چند روز بعد پہلے تجربے میں سے بچ جانے والے 793 اور اس کے علاوہ 142 اضافی خطوط کے ساتھ نیا تجربہ کیا گیا۔ اس بار یہ دوسرے جزیرے سے کیا تھا۔ لیکن یہ دوسرا راکٹ بھی لانچ پیڈ پر ہی پھٹ گیا۔ اور اس بار پہلے سے زیادہ اونچی آواز سے۔ بچ جانے والے خطوط اکٹھے کئے گئے اور انہیں روایتی ڈاک سے روانہ کر دیا گیا۔ تجربہ ختم ہو گیا۔
لیکن زکر ضدی تھے، وہ لگے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ اگلی بار کامیاب ہو گی یا پھر اگلی بار یا پھر اگلی بار۔ یہ کبھی نہیں ہوا، کم از کم ڈاک کے لئے کبھی نہیں۔
چھوٹے سکیل کے راکٹ قابلِ اعتبار نہیں ہوتے۔ پٹرول انجن سے چلنے والی گاڑی ان سے تیزی سے ڈاک پہنچا سکتی ہے اور پھر ٹیلی گراف بھی۔
لیکن ایک لحاظ سے وہ درست تھے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ تک ہائی پریشر گیس کے ذریعے راکٹ پہنچایا جا سکتا تھا۔ اور اس ٹیکنالوجی کے دوسرے استعمال تھے۔
دوسرے لوگوں نے اس اصول کو دوسرے عملی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ اس کی کامیابی عسکری مقاصد میں ہوئی۔ جرمنی کے بنائے گئے V1 اور V2 راکٹ دوسری جنگِ عظیم میں استعمال ہوئے۔ اور پھر سپیس پروگرام نے انہیں اپنا لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راکٹ خوفناک حد تک طاقتور ہو سکتے ہیں۔ ان سے ہم زمین کی گریویٹی کا پھندا توڑ کر خلا میں پہنچ گئے، چاند پر چہل قدمی کر لی اور سیٹلائیٹ مداروں میں بھیج دئے۔ لیکن ہر Saturn V، Soyuz, Falcoln 9، Arianne یا کسی بھی قسم کے راکٹ کے پیچھے اصول ایک ہی ہے۔ وہی جس کے ذریعے گیرہارڈ زکر اپنی ڈاک بھیجنا چاہ رہے تھے۔ اگر آپ کافی مقدار میں گرم اور ہائی پریشر گیس فوری طور پر بنا لیں تو ان اربوں مالیکیولز سے اتنی قوت بنائی جا سکتی ہے جو کہ بڑے کام کر دے۔
سوئز راکٹ کی پہلی سٹیج میں فضائی دباؤ سے ساٹھ گنا پریشر ہوتا ہے۔ لیکن یہ بالآخر مالیکیول ہی ہیں جو ادھر ادھر ٹکرا رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں اور ٹھیک مقدار میں ان کی ٹکریں انسان کو چاند تک بھی پہنچا سکتی ہیں۔ چھوٹی چیزوں کو کبھی ہلکا نہ لیں۔
(جاری ہے)