اجنبیوں سے بھرے بازار میں ٹہلتا شخص ۔۔۔ یہ معمولی لگنے والا منظر غیرمعمولی ہے اور زمینی زندگی کے نقطہ نظر سے ایک بڑا عجوبہ ہے۔ ہم ایسے لوگو...
اجنبیوں سے بھرے بازار میں ٹہلتا شخص ۔۔۔ یہ معمولی لگنے والا منظر غیرمعمولی ہے اور زمینی زندگی کے نقطہ نظر سے ایک بڑا عجوبہ ہے۔ ہم ایسے لوگوں کا سامنا کرتے ہیں جنہیں جانتے بھی نہیں۔ پہلے کبھی نہیں ملے ہوتے۔ ان سے سلام دعا بھی کر لیتے ہیں۔ خریدوفروخت بھی کر لیتے ہیں۔ اور اس دوران کسی پریشانی کا شکار نہیں ہوتے۔ یہ بتاتا ہے کہ ہماری نوع میں کچھ منفرد ہے۔ opposable انگوٹھے، دو ٹانگوں پر سیدھا کھڑے ہونا یا بڑا دماغ ۔۔۔ ان چیزوں سے زیادہ حیران کن ہمارا سماجی رویہ ہے۔ زیادہ تر فقاریہ جانور ایسا نہیں کر سکتے۔
اگر اس کی جگہ پر چمپینزی ہو اور گروہ تو چھوڑیں، کسی اکیلے اجنبی کا سامنا کرے تو یا تو بھاگ جائے گا یا پھر لڑائی چھڑ جائے گی۔
ان سے زیادہ صلح جو جانور بونوبو بھی اجنبیوں کے سامنے سے بلا خوف و خطر نہیں گزرے گا۔ جبکہ انسانوں کے لئے یہ عام ہے۔
کسی میچ میں تماشائی ہوں، تھیٹر میں سامعین، میلہ ہو یا پارک، جلسہ یا جماعت، منڈی یا ریلوے سٹیشن۔۔ ہم اجنبیوں کی موجودگی برداشت بھی کرتے ہیں اور ان میں سے چند سے راہ و رسم بھی بنا لیتے ہیں۔
اجنبیوں کے بیچ امن و آشتی سے رہنا انسان کے رہن سہن کا غیرمعمولی عجوبہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اپنی شناخت کے بارے میں طرح طرح کے نشان رکھتے ہیں۔ قیمتی انگوٹھی یا لباس امارت کا نشان ہو گا۔ لیکن ہمارے زیادہ تر نشان وہ ہیں جو ہماری گروہی شناخت کے ہیں جن کی مدد سے ہم شعوری یا غیرشعوری طور پر شناخت کرتے ہیں۔
زیادہ تر ممالیہ سوسائٹی کی شناخت کے نشان نہیں رکھتے۔ گھوڑوں کا گروہ اپنی چال یا ہنہنانے کے انداز کو ہم آہنگ نہیں کرتا۔ ان کے گروہ انفرادی تعلق سے وجود میں آتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سماجی کیڑوں میں انفرادی تعلق نہیں ہوتا۔ ان کے گروہ صرف شناخت کی بنا پر وجود میں آتے ہیں۔ انسان ان دونوں کے بیچ میں ہے۔ ہم اپنی سوسائٹی میں چند لوگوں سے اہم سماجی تعلق استوار کرتے ہیں لیکن زیادہ تر سے نہیں۔
چمپنزی کو اپنی سوسائٹی میں سب کو جاننا ہے۔ چیونٹی کو کسی کو بھی نہیں۔ جبکہ انسانوں کو چند کو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جن چند کو ہم جانتے ہیں، یہ سماجی تعلق کے دائروں میں مختلف جگہوں پر ہیں۔ قریبی تعلق سے لے کر دور کے تعلق تک۔ اپنے شریکِ حیات، خاندان، قریبی دوست ۔۔۔ پھر ایسے چند سو افراد، جن کو ہم جانتے تو ہیں لیکن زیادہ گہرا تعلق نہیں ہوتا۔ ان سے آگے تعلق قبیلے یا قوم یا وطن کے افراد، جن کے ساتھ ہم خود کو شناخت کرتے ہیں۔ ان میں سے بڑی تعداد اجنبیوں کی ہوتی ہے۔لیکن ان کے ساتھ کسی خاص چیز سے تعلق ہوتا ہے۔ یہ شناخت کے نشان ہیں جو کہ انواع و اقسام کے ہیں۔ ہمارے لئے تمام اجنبی برابر نہیں۔
میچ دیکھتے وقت فخریہ طور پر اپنی پسندیدہ ٹیم کی قمیض پہن لینا ایسے نشان کی ایک مثال ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ نمایاں اور واضح نہیں ہوتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجنبیوں سے بھرے بازار میں ٹہلتا شخص ۔۔۔ یہ غیرمشروط نہیں۔ اپنے رویے، حلیے، اطوار، اشاروں یا پھر کسی بھی اور طریقے سے ان اجنبیوں کی توقعات کی حدود کے اندر اندر رہنا اس منظر میں امن کی شرط ہے۔
(جاری ہے)