Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

لچکدار دماغ (6) ۔ مصنوعی ذہانت کی ابتدا

بیسویں صدی کے وسط میں انفارمیشن سائنس کے ماہرین یہ یقین رکھتے تھے کہ انسانی سوچ کی طرز پر مصنوعی ذہانت بنائی جا سکتی ہے۔ اس کا ایک مشہور پرو...


بیسویں صدی کے وسط میں انفارمیشن سائنس کے ماہرین یہ یقین رکھتے تھے کہ انسانی سوچ کی طرز پر مصنوعی ذہانت بنائی جا سکتی ہے۔
اس کا ایک مشہور پروگرام General problem solver تھا۔
یہ مصنوعی ذہانت کی پہلی کوشش تھی۔ اس کے مقاصد بہت بڑے تھے۔  لیکن اس کی وجہ گھمنڈ نہیں تھا بلکہ بھولپن تھا۔
ایسا کیوں؟ کمپیوٹر علامتوں کو پراسس کرتے ہیں۔ یہ علامتیں دنیا کے فیکٹ بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ وہ قوانین بھی ہو سکتے ہیں جو کہ ان علامتوں کی پراسسنگ کا بتاتے ہوں۔ اور ماہرین کا خیال تھا کہ اس طریقے سے کمپیوٹر کو سوچنا سکھایا جا سکتا ہے۔ کمپیوٹنگ کی ٹیکنالوجی تو بول اور بیبج کے وقت والی نہیں لیکن تصور وہی ہے۔
اس سادہ لوح نظر سے ۔۔ اگر فیقے کو بریانی پسند ہے۔ اور اگر جیراں بریانی بناتی ہے تو یہ کمپیوٹنگ سے نکالا جا سکتا ہے کہ فیقے کو یہ بریانی کتنی پسند آئے گی اور شاید یہ بھی کہ جیراں کتنی پسند آئے گی۔ اور اسی طرز کا مسئلہ ہے کہ اعداد کا جذر نکالا جائے۔
لیکن اس اپروچ کی حد جلد ہی سامنے آ جاتی ہے۔ اچھی طرح ڈیفائن کئے گئے معمے اور پہیلیاں تو حل ہو جاتی ہیں لیکن ابہامات سے بھری اصل دنیا میں یہ پھنس جاتی ہے۔
اصل دنیا کے تمام انوکھے پن اور تبدیلیوں کو پراسس کرنے کیلئے پیچیدہ دنیا کی گہری سمجھ اور لچکدار ذہن کی ضرورت ہے۔
ابتدائی کمپیوٹنگ کی کوششیں سلائم مولڈ اور بہت سادہ تجزیاتی سوچ سے زیادہ نہیں تھی۔
اور اس میں اس وقت سے آج تک زیادہ ترقی نہیں ہو سکی۔
آج ہم جس دنیا میں رہتے ہیں، وہ بول اور بیبج کا دماغ چکرا دیتی اور بیسویں صدی کے وسط کے ماہرین کا بھی۔ ہم چھوٹی سی سیلیکون چِپ میں بیبج کی مشین جیسے اربوں خوردبینی انجن بن لیتے ہیں۔ ہر وقت میں بول کے الجبرا کی ان گنت کیلکولیشن ہو رہی ہوتی ہیں۔ لیکن General problem solver کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اینڈریو مور گوگل میں وائس پریزیڈنٹ تھے اور اب کارنیگی میل کے کمیپوٹر سائنس کا مشہور سکول چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کے کمپیوٹر بہت سمارٹ کیلکولیٹر ہیں۔ “اگر دو بلیک ہولز کا تصادم ہو تو کیا ہو گا؟” یہ اس کی فزکس گاڑھی مساوات کو حل کر کے بہترین حل نکال لیتے ہیں لیکن اس سے پہلے کسی انسان کو یہ پرابلم سیٹ کرنی پڑتی ہے کہ کونسی جنرل تھیوری سے کونسی مساوات یہاں پر استعمال ہوں گی۔ کوئی بھی کمپیوٹر خود سے تھیوری ایجاد نہیں کر سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔
یا پھر لیڈی لولیس کا خواب کہ کمپیوٹر موسیقی ترتیب دے سکیں گے؟
ہم کمپیوٹر ی مدد سے بڑا پیچیدہ اور خوشگوار میوزک بنا چکے ہیں۔ آپ کو موبائل ایپ بھی مل جائیں گی جو ہر بار نئی دھن ترتیب دیتی ہیں۔
یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ اور اس کی اپنی جگہ ہے۔ لیکن یہ موسیقی کی “نئی تخلیق” نہیں ہے۔ یہ پروگرام پہلے سے بنائی گئی موسیقی کے دستخط سے ہوتی ہیں۔ اگر کوئی فنکار موزارٹ یا اینو کی موسیقی کی مدد سے یہ کام کرے تو ہم اسے اوریجنل نہیں کہیں گے۔
(جاری ہے)