بیسویں صدی کے آغاز میں مشہور سائنسدان سر جیمز جینز نے بلیک باڈی ریڈی ایشن کے فینامینا پر ایک تھیوری پیش کی۔ اس تھیوری کی بنیاد نیوٹن کے قوان...
بیسویں صدی کے آغاز میں مشہور سائنسدان سر جیمز جینز نے بلیک باڈی ریڈی ایشن کے فینامینا پر ایک تھیوری پیش کی۔ اس تھیوری کی بنیاد نیوٹن کے قوانین اور الیکٹرومیگنیٹک فورس کی تھیوری تھی۔ جینز کی تھیوری خوبصورت تھی اور ثابت شدہ فزکس سے نکلی تھی لیکن جب اس کی پیشن گوئی کو تجرباتی کسوٹی کا سامنا ہوا تو نتائج بالکل مختلف تھے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ جینز کی تھیوری کی ریاضی بالکل ٹھیک تھی۔ لیکن جن اجزاء سے اس کو پکایا گیا تھا، مسئلہ وہاں پر تھا۔ نیوٹن کے قوانین کا اطلاق ایٹم پر نہیں ہوتا اور ایٹم کی حرکت بلیک باڈی ریڈی ایشن پیدا کرتی ہے۔
جس وقت جینز اپنی تھیوری پر کام کر رہے تھے، اس وقت ایک اور غیرمعروف سائنسدان میکس پلانک کچھ اور ہی پکا رہے تھے۔ یہ نیوٹن کے قوانین کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ اس کی بنیاد بھی ان کی بنائی گئی تھی جس کو انہوں نے کوانٹم اصول کا نام دیا تھا۔ پلانک کی پکائی گئی تھیوری تجرباتی ڈیتا سے بالکل میچ کرتی تھی۔ جب جینز سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کی تھیوری تجربات سے مطابقت نہیں رکھتی جبکہ پلانک کی تھیوری رکھتی ہے لیکن پھر بھی انہی کی تھیوری ٹھیک ہے۔ سر جیمز جینز سے فزکس کے کسی بھی موضوع پر بات کر لی جاتی تو وہ بہت عمدہ جواب دیتے لیکن اپنے ناکام خیال کا دفاع کرتے رہے۔
سیاسی تجزیہ نگار ہانا آرینڈت “جامد سوچ” کی تعریف اس طرح کرتی ہیں کہ یہ وہ خیالات اور اصول ہیں جو ہم نے بہت پہلے ذہن میں بنا لئے تھے اور اب ان پر سوال نہیں کرتے۔ آرینڈت کی نظر میں “تسلیم شدہ سچ” بغیر سوچ کے ہوتے ہیں۔ ویسے جیسے کسی مچھر یا مرغابی کی زندگی کے سچ۔ اسی طرح کمپیوٹر کے لئے یا کسی آٹو پائلٹ پر چلنے والے انسان کے سچ بھی ویسے ہی ہیں۔ ایسے افراد جو منجمد سوچ کے زیرِ اثر ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ وہ انفارمیشن کو پراسس کرنے میں بہت اچھے ہوں لیکن ان کی اس سوچ سے مطابقت رکھنے والا ہر خیال وہ آنکھ بند کے قبول کریں گے اور اس سے مختلف خیال کو تسلیم کرنے میں مزاحمت کریں گے، خواہ اس کے خلاف شواہد کا ڈھیر لگا ہو۔
یہ ذہن کا ڈیزائن ہے۔ ایک بار سمت فِکس ہو جائے تو کسی مسئلے کی طرف اپروچ اور فریم طے ہو جاتا ہے۔ یہ ہمارے لئے چیلنج ہے کہ اپنے ان خیالات کو کس طرح پگھلا سکیں۔ یہ تنقیدی سوچ کا چیلنج ہے۔ آرینڈت کی دلچسپی یہ جاننے میں تھی کہ برائی کہاں سے وجود میں آتی ہے، کیونکہ جہاں پر سوچ کو چیلنج نہ کیا جا سکے، وہاں پر سوسائٹی بھیانک راہوں کی طرف جا سکتی ہے۔ نازی جرمنی اس کی ایک مثال تھا۔ یہ خطرہ آج دنیا میں کئی جگہوں پر موجود ہے۔ آرینڈت کا کہنا تھا، “اپنی بنیادی خیالات اور تعصبات کا تنقیدی نظر سے جائزہ لینے کی اہلیت نہ ہونے کی وجہ بے وقوفی یا کم عقلی نہیں۔ انتہائی ذہین افراد بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں”۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جامد سوچ خطرہ بن سکتی ہے۔ خاص طور پر اگر یہ رکھنے ولا اپنے شعبے کا ماہر ہو۔ نئے خیالات کی تخلیق اور قبولیت میں یہ رویہ رکاوٹ بنتا ہے۔ نئے سائنسی پیپر کو ریفری کرنے والے ماہرین اس کو لکھنے والوں کو ہمیشہ سمجھ نہیں پاتے۔ کیونکہ جس طرح کسی پروفیشنل کرکٹر کی کور ڈرائیو اس کے موٹر کورٹیکس میں لکھی گئی ہے، ویسے پروفیشنل تھنکر کی روایتی سوچ اس کے پری فرنٹل کورٹیکس میں۔ فوٹوگرافر ڈوروتھیا لانج کی زبان میں، “اگر آپ کو پہلے ہی پتا ہے کہ آپ کیا دیکھنے لگے ہیں تو آپ کچھ اور دیکھنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھیں گے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جامد سوچ کئی سائنسدانوں کے کیرئیر اور کئی بزنس ختم کر چکی ہے لیکن ایک جگہ جہاں پر یہ سب سے خطرناک ہے وہ میڈیسن کا شعبہ ہے اور پبلک ہیلتھ کے محققین اب اس کے اثرات کو سمجھنا شروع ہوئے ہیں۔ مثلا، اگر آپ کسی ہسپتال میں جائیں تو آپ کی خواہش ہو گی کہ سب سے زیادہ تجربہ کار ڈاکٹر آپ کا علاج کرے۔ 2014 میں ہونے والی سٹڈی بتاتی ہے کہ بہتر ہے کہ آپ کم تجربہ کار ڈاکٹر کے پاس جائیں تو زیادہ بہتر علاج کا امکان ہے۔
یہ سٹڈی دس برس سے اکٹھے کئے گئے ڈیٹا پر کی گئی اور جرنل آف امیریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں چھپی ہے۔ اس میں دسیوں ہزار کیسز کا تجزیہ کیا گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ جب بہترین ڈاکٹر چھٹی پر تھے یا شہر سے باہر تھے تو تیس روز میں ہائی رِسک کیسز میں مرنے والوں کی شرح ایک تہائی تک کم ہو تھی۔
اس پیپر کے مصنفین نے وضاحت اس طرح کی کہ تجربہ کار ڈاکٹر کی غلطیوں کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی رائے تجربے کی بنیاد پر جلد قائم کر لیتے تھے۔ ایسے کیس جو روٹین کے نہ ہوں، ان میں یہ غلط نتیجہ دے سکتی ہے کیونکہ ابتدائی تجزیے میں اہم پہلو نظر سے اوجھل رہ سکتا ہے اور اپنی رائے کو دوبارہ جانچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جونئیر ڈاکٹر چونکہ سست تھے اور رائے کے بارے میں اتنے پراعتماد نہیں تھے، اس لئے وہ غیرمعمولی کیس میں زیادہ کھلے ذہن کے حامل تھے۔
اسرائیلی میڈیکل جرنل میں ایک اور اسی قسم کی بولڈ سٹڈی شائع ہوئی جس میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ کیا جامد سوچ رکھنے والے ڈاکٹر ضرورت سے زیادہ ادویات تجویز کر رہے ہیں؟ خاص طور پر بغیر گہری سوچ میں جائے آٹو پائلٹ پر چلنے والے ڈاکٹر نئی تجویز کردہ دوائی کا پہلے سے لی جانے والی ادویات کے ساتھ اثر ٹھیک طرح سے نہیں دیکھتے۔ اس پر تحقیق کرنے کے لئے سائنسدانوں نے بوڑھوں کے نرسنگ ہوم میں سے 119 مریضوں کا انتخاب کیا۔ یہ مریض اوسطا سات ادویات روزانہ لے رہے تھے۔ محتاط مانیٹرنگ کے بعد، ان محققین نے ان میں سے نصف ادویات بند کروا دیں۔ ان کو روکنے کے بعد کوئی بھی مریض فوت نہیں ہوا یا کوئی مضر اثرات نہیں ہوئے اور تقریبا تمام نے صحت میں بہتری رپورٹ کی۔ اس کنٹرول گروپ کی شرح اموات دوسروں سے کم ہو گئی تھی۔ میڈیکل ڈوگما ہے کہ دوائیاں زندگی بڑھاتی ہیں لیکن اگر ڈاکٹر اس بارے میں تمام مریضوں کے لئے جامد سوچ کا شکار ہو جائیں تو یہ سوچ ضرر رساں ہے۔
امریکن میڈیکل جرنل میں لکھے ایک کیس سے اس کے بارے میں اچھی وضاحت ہو جاتی ہے۔ ایک چھ سالہ بچہ ایک ڈاکٹر کے پاس لایا گیا جو بات نہیں سنتا تھا اور رویے کا مسئلہ تھا۔ ماں اور بچے سے بات کر کے ڈاکٹر نے نتیجہ نکالا کہ اس کو توجہ کی کمی کا سنڈروم (ADHD) ہے۔ ماں نے اس دوران بتایا کہ بچے کو سانس کی تکلیف ہےاور آج کل کافی کھانس رہا ہےاور دمے کے لئے دوا کا استعمال زیادہ کر رہا ہے تا کہ اس پر قابو پا سکے۔ ڈاکٹر، جس نے اپنا دماغ بند نہیں کیا تھا، اس کے لئے یہ ایک نئی انفارمیشن تھی۔ اس دوا کی وجہ سے ہائیر ایکٹیویٹی ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر نے اپنا پچھلا لکھا ہوا نسخہ پھاڑ دیا اور دمے کے کنٹرول کی نئی دوائی تجویز کر دی تا کہ اس کو پچھلی دوا زیادہ نہ لینا پڑے۔ بچے کا مسئلہ حل ہو گیا۔
(جاری ہے)