آج سے دو ہزار سال پہلے ارسطو نے کہا تھا کہ سوچ دنیا کی اندرونی شبیہہ ہے۔ جو تصویر آنکھ تک پہنچتی ہے اور ذہن میں اس سے ہونے والا ادراک الگ ...
آج سے دو ہزار سال پہلے ارسطو نے کہا تھا کہ سوچ دنیا کی اندرونی شبیہہ ہے۔ جو تصویر آنکھ تک پہنچتی ہے اور ذہن میں اس سے ہونے والا ادراک الگ چیزیں ہیں۔ اور (اپنے بیشتر خیالات کے برعکس) ارسطو اس میں بالکل ٹھیک تھے۔ انہیں دماغ کے اندرونی سٹرکچر کا علم نہیں تھا لیکن کسی بھی لفظ یا تصور کو سوچ کی شے بننے کیلئے دماغ نیورل نیٹورک میں اس کی representation بننی ہے۔
ایسا نہیں کہ ہمارے دماغ میں کوئی ویڈیو سکرین لگی ہے جہاں پر آنکھ سے موصول ہونے والا ڈیٹا براہِ راست ایک فلم چلاتا رہتا ہے۔ اس دنیا کا ادراک کرنے کیلئے دماغ کو بصری ڈیٹا کا ترجمہ کرنا ہے اور پھر اسے encode کرنا ہے۔
اور ایسا نہیں ہے کہ صرف حسیاتی ڈیٹا بلکہ تمام ڈیٹا کے ساتھ ایسا ہے۔ یہ فیکٹ کہ “برف دراصل جما ہوا پانی ہے” سے لے کر اس چیز کو سمجھنا کہ “اپنے پالتو کتے کا نام شیطان رکھنا نامناسب ہے”۔ ہمارا علم، خیالات اور دیگر انفارمیشن کی نمائندگی ان نیورل نیٹورک میں ہے اور یہ سادہ انفارمیشن کے فقروں کی صورت میں نہیں۔
ہمارے آسان ترین تصورات بھی دنیا کی گہری سمجھ کا نتیجہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مثال کے طور پر، آپ ایک فون نمبر یاد کرتے ہیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہو کہ دماغ اسے اعداد کی لڑی کی صورت میں سٹور کرے۔ یا پھر ویسے جیسے کاغذ پر لکھے اعداد کی تصویر کھینچ کر انہیں یاد رکھے۔
کیا آپ اپنا فون نمبر الٹا کر بتا سکتے ہیں؟ کوشش کر کے دیکھئے۔ اس میں لگنے والی بہت سی اضافی محنت یہ دکھاتی ہے کہ دماغ میں یہ ایسے سٹور نہیں ہوتا۔ اگر یہ کاغذ پر لکھا ہوتا تو الٹا کر پڑھنا مشکل نہ ہوتا۔ لیکن یہاں پر ہونے والی مشکل کی وجہ دماغ میں فون نمبر کی representation ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سن 1997 میں بڑی ہیڈلائن اس وقت بنیں جب آئی بی ایم کے کمپیوٹر ڈیپ بلیو نے شطرنج کے عالمی چیمپئن کو شکست دے دی۔
اس مشین کو بنانے والی ٹیم کیلئے پہلا کام یہ تھا کہ یہ طے کیا جائے کہ پروگرام کیلئے اندرونی طور پر شطرنج کی representation کیا ہو گی۔ اس کیلئے ممکنہ چالوں کا درخت بنایا گیا۔ ان کے ممکنہ جوابات کا۔ رولز بنائے گئے جو کہ بساط کی حالت کو value دیتے تھے۔ اور یہ اس بات کو طے کرتا تھا کہ جب ڈیپ بلیو چال کا سوچتے وقت کرتا کیا تھا۔ یہ بساط کا تجزیہ کرتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مشین کے حریف کاسپاروف تھے۔ ان کا دماغ شطرنج کی چالوں کو ڈیپ بلیو والے طریقے سے represent نہیں کرتا تھا۔ ان کا طریقہ کہیں زیادہ طاقتور تھا۔ یہ معنی خیز پیٹرن کا مجموعہ تھا۔ شطرنج کے مہروں کے کسی گروپ کو ایک دوسرے کے دفاع اور حملے کیلئے ایک یونٹ کے طور پر دیکھتے تھے۔ یہ دیکھتے تھے کہ بساط کے کس اہم خانے پر کس کا زور ہے۔
اس کھیل کو bottom up نیورل نیٹورک والے طریقہ سے دیکھنے انسانی دماغ کے لئے قدرتی ہے۔ جبکہ پروگرامرز کا بنایا ہوا ممکنات کا درخت کمپیوٹر کیلئے روایتی top down ڈیزائن ہے۔ دماغ میں مجموعی حکمتِ عملی اور اصولوں کا تجزیہ ہے اور سیکھتے رہنے کا لچکدار طریقہ ہے۔ کمپیوٹر کا طریقہ قدم بہ قدم منطقی تجزیے کا ہے۔ اس کیلئے ایک فیصلہ ایک بڑی ریاضی کی کیلکولیشن ہے۔ اس سے جواب نکل آتا ہے لیکن اس جواب کی تصوراتی سمجھ نہیں ہوتی۔ اور سیکھنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر وقت کی قید نہ ہو تو اس درخت میں سے تلاش اصولی طور پر بہتر نتائج دے گی۔ چونکہ وقت لامحدود نہیں ہے، اس لئے تجزیے کے طریقہ کا انحصار اپنے ہارڈوئیر کی رفتار پر ہو گا۔
ڈیپ بلیو شطرنج کے چال کے تجزیے میں کاسپروف سے کہیں زیادہ تیز تھا۔ کاسپروف سے ایک ارب گنا تیز۔
حیران کن بات یہ نہیں تھی کہ ڈیپ بلیو جیت کیسے گیا۔ بلکہ یہ کہ کاسپروف نے اس سے مقابلہ کیسے کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلی دہائی میں کمپیوٹر پروگرام دوسری گیمز میں انسانوں کو پچھاڑ رہے ہیں۔ 2011 میں آئی بی ایم کے کمپیوٹر واٹسن نے Jeopardy کے چیمپئن کو شکست دی۔ اس کے پاس چار ٹیرابائیٹ سٹوریج اور بیس کروڑ پیجز کا متن موجود تھا۔ اور اب بہت سستے کمپیپوٹر بھی شطرنج میں عالمی چیمپئن کو بہت آسانی سے شکست دے لیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی بائیولوجی کے انفارمیشن پراسس کرنے کے سسٹم کو نقل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسے نیورل نیٹورک جو دماغ کے باٹم اپ سسٹم کی طرح سے چلیں۔ ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں میں زور و شور سے یہ مقابلہ جاری ہے۔ فیس بک، ایپل، مائیکروسوفٹ، ایمازون سمیت بہت سے ادارے اس دوڑ میں شریک ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس کے نتائج نظر آ رہے ہیں۔ کمپیوٹر Go کی گیم میں بہترین کھلاڑیوں کو شکست دے چکے ہیں۔ گوگل زبانوں کے تراجم کرنے میں بہت بہتر ہو چکا ہے۔
لیکن یہاں پر ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگرچہ اس سے روایتی طریقے کے مقابلے میں بہتر نتائج حاصل ہو رہے ہیں۔ لیکن آج کے نیورل نیٹ کے سسٹم دنیا کے اندرونی representation اس مسئلے کے مطابق ہی رکھتے ہیں جسے حل کرنے کیلئے بنے ہوں۔ یہ ایک خاص طریقے سے سٹرکچر کی گئی صورتحال کو سیکھنے میں ماہر ہیں۔
جو پروگرام زبانوں کا ترجمہ کر سکتا ہے، وہ شطرنج نہیں کھیل سکتا۔ ایک انسانی دماغ یہ دونوں کام بیک وقت کر سکتا ہے۔ (اور ساتھ ہی ایک ٹانگ پر کھڑا ہو کر اپنا توازن برقرار بھی رکھ سکتا ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ لچک جانوروں کے دماغوں میں ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ زندگی میں ہر قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ اور ہر ایک کے لئے الگ دماغ نہیں رکھا جا سکتا۔
انجانے مسائل کو حل کرنا پیچیدہ زندگی کا معمول ہے۔ اس کیلئے ہماری representation بھی جامد نہیں۔ اور یہ بغیر کسی بیرونی مداخلت کے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ بائیولوجی میں انفارمیشن پراسسنگ کا معجزہ ہے۔
اور یہ وجہ ہے کہ اگر آپ کو واقعی میں ایک نیا General Problem Solver درکار ہے تو آج اس کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ اپنا شریکِ حیات تلاش کریں اور نیا انسان تخلیق کریں ۔۔۔۔
(جاری ہے)