تصور کریں کہ آج سے کئی ملین سال قبل کے کسی انسان نما (Homo habilis) نے شکار کیا ہے۔ اس دوران میں ایک تیزدھار والے پتھر سے وہ زخمی ہو گیا۔ ی...
تصور کریں کہ آج سے کئی ملین سال قبل کے کسی انسان نما (Homo habilis) نے شکار کیا ہے۔ اس دوران میں ایک تیزدھار والے پتھر سے وہ زخمی ہو گیا۔ یہاں پر اچانک اسے ایک خیال کوندا۔ “پتھر کی دھار نے مجھے زخمی کر دیا۔ اگر اپنے شکار پر استعمال کیا جائے تو یہ اسے بھی زخمی کر دے گا۔ میں شکار میں اسے استعمال کر سکتا ہوں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نسان کمپنی کے ڈیزائن کے انچارج جیری ہرشبرگ کو 1990 میں نئی گاڑی کے ڈیزائن کرنے کا مسئلہ درپیش ہے۔ ایک روز انہیں ایک ایک منظر نظر آیا۔ ایک اور کمپنی کی منی وین میں ایک جوڑا صوفہ لادنے کی کوشش کر رہا ہے اور پچھلی سیٹ آڑے آ رہی ہے۔ ان کے ذہن میں ایک خیال کوندا۔ سیٹ کے نیچے ٹریک لگا دئے جائیں تا کہ اس کو فولڈ کر کے آگے کر دیا جائے اور پیچھے جگہ بن جائے۔ یہ Nissan Quest کا سب سے مقبول فیچر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان دونوں ایجادات میں مشترک چیز یہ تھی کہ کسی کے دماغ میں بظاہر غیرمتعلقہ خیالات کے درمیان ایسوسی ایشن بن گئی تھی۔ الگ زمانے۔ الگ انواع۔ دریافت کا الگ راستہ۔
فطرت میں مختلف ایٹم ٹکراتے ہیں اور ملکر نئے مالیکیول بناتے ہیں۔ ان کی خاصیتیں ان ایٹمز سے مختلف ہوتی ہیں جن سے ملکر یہ بنے ہوتے ہیں۔ ہمارے دماغ کا ایک نیورل نیٹورک دوسرے سے رابطہ کرتا ہے اور کسی کو متحرک کر دیتا ہے۔ خیالات کے متنوع مرکبات بنتے ہیں۔ آرٹ، سائنس، بزنس، ذاتی زندگی میں مقاصد اور تناظر کا فرق ہے۔ لیکن نیورل نیٹورک کی سطح پر دماغ کے مختلف تصورات کی ایسوسی ایشن سے ابھرنے والی سوچ کے طریقے ہیں۔
ذہنی آلہ جس سے ہم بزنس کے مسئلے حل کرتے ہیں یا اپنی ذاتی زندگی میں حالات میں ترمیم کرتے ہیں۔۔ وہی ہیں جن سے نیا آرٹ تخلیق کیا جاتا ہے یا سائنس میں نئی تھیوری بنتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور بہت اہم چیز یہ کہ آرٹ اور سائنس میں ماسٹر پیس کی تخلیق میں سوچ کے پراسس ان سے بالکل مختلف نہیں جو ہماری ناکامیاں تخلیق کرتی ہیں۔
اور اس لئے اس بات میں بہت دانائی ہے کہ “اصل چیز منزل نہیں، سفر ہے”۔
اور یہاں پر یہ بھی یاد رہے کہ کسی تخلیق کی معاشرے میں کیا قدر ہو گی؟ اس کا علم کئی بار تخلیق کے بہت بعد بھی نہیں ہوتا۔
عظیم مصور وان گو اپنی زندگی میں بیشتر تصاویر نہیں بیچ پائے تھے۔ یا مینڈل کا جینیات پر شہرہ آفاق کام ان کی وفات کے بہت بعد جا کر مقبول ہوا تھا۔ کاپرنیکس کا سورج کی مرکزیت کا ماڈل نصف صدی سے زیادہ دیر پس منظر میں رہا تھا۔
چیسٹر کارلسن نے فوٹوکاپی کی مشین 1938 میں ایجاد کی تھی لیکن اسے بیچ نہیں سکے تھے۔ بڑے اداروں کا خیال تھا کہ یہ بے کار کا آئیڈیا ہے۔ جب کاربن پیپر موجود ہے تو اتنی بھاری مشین بھلا کون خریدے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رچرڈ فائنمین نے پال ڈیراک (جو کوانٹم تھیوری کے بانیوں میں سے ہیں) کا ایک تبصرہ سنا تھا۔ انہوں نے اس بات اور اپنے خیالات کے درمیان ذہنی ایسوسی ایشن بنا لی تھی۔ اور کئی برسوں کی محنت کے بعد اس کی مدد سے کوانٹم تھیوری کو دیکھنے کا بالکل ہی الگ طریقہ نکال لیا تھا۔ یہ فائنمین ڈایاگرام تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اگر فائنمین کا پلان ناکام رہتا۔ ان کی ریاضی میں کچھ کمزوری نکل آتی؟ ان کے آئیڈیا اتنی ہی imaginative رہتے۔ فائنمین خود اپنے کئی آئیڈیا کا بتاتے تھے جس پر وہ کام کرتے رہے لیکن کہیں نہ پہنچ سکے۔
سائنسدان (درست طور پر) ایسی تھیوریوں کی قدر کرتے ہیں جو کام کرتی ہیں۔ لیکن ہم تجویز کردہ تھیوریوں کی انٹلکچوئل خوبصورتی کو بھی سراہ سکتے ہیں، خواہ وہ بعد میں کامیاب نہ ہو سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں تک فائنمین کا تعلق ہے تو وہ اپنے مشہور بریک تھرو اور اپنے طویل کیرئیر میں حل کردہ دوسرے چھوٹے بڑے پرابلم کے حل میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے۔ ایسا شخص جس نے ایک شعبے میں انقلابی حصہ ڈالا، وہ بہت چھوٹی سی چیزوں سے بھی اتنا ہی لطف لیتا تھا۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری لچکدار سوچ کی مشق ہمیں اندرونی طور پر راحت دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فائنمین اس چیز کا اظہار اپنے ایک خط میں کرتے ہیں جو کہ انہوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے سابق طالبعلم کو 1966 میں لکھا۔ اس طالبعلم نے انہیں خط لکھ کر معذرت کی تھی کہ وہ کسی اہم چیز پر کام نہیں کر رہے اور اپنے استاد کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے۔ اس پر جوابی خط تھا۔
“عزیز کوئیچی،
خط پڑھ کر خوشی ہوئی۔ اور اس پر بھی کہ تم ریسرچ لیبارٹریز میں کام کر رہے ہو۔
بدقسمتی سے مجھے اچھا نہیں لگا کہ تم افسردہ ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ تم اس بارے میں کچھ غلط سمجھے بیٹھے ہو کہ اہم کیا ہے۔
ہر مسئلہ اس وقت تک ہم ہے جب تک وہ حل نہیں ہوتا اور ہم اس میں آگے نہیں بڑھتے۔
تم مجھے اس وقت ملے تھے جب میں اپنے کیرئیر کے عروج پر تھا اور تمہیں یہ گمان ہوا ہو گا کہ میں کسی عظیم مسئلے کو حل کرنے کے پیچھے ہوں۔ لیکن اس وقت ایک اور شاگرد (البرٹ ہبز) میرے پاس آیا اور کہا کہ وہ اپنا تھیسس اس چیز پر کرنا چاہتا ہے کہ سمندر کے پانی کی لہریں اوپر چلتی ہوا کو کس طرح متاثر کرتی ہیں۔ میرے لئے یہ بہت دلچسپ تھا کیونکہ اس کے پاس ایک غیرحل شدہ مسئلہ تھا۔
کوئی بھی مسئلہ چھوٹا نہیں ہوتا اگر ہم اس کے بارے میں کچھ کر سکیں۔
تم کہتے ہو کہ تم گمنام شخص ہو۔ تم اپنے بیوی بچوں کے لئے گمنام نہیں ہو۔ تم اپنے کولیگ کے لئے بھی گمنام نہیں ہو گے، اگر وہ دفتر میں سادہ سوال تم سے پوچھیں اور تم مدد کر سکو۔ اور تم میرے لئے بھی گمنام نہیں ہو۔
اپنی نظر میں گمنام نہ رہو۔ یہ بہت افسوس کی بات ہو گی۔ اس دنیا میں اپنی جگہ پہچانو اور اپنے ساتھ انصاف کرو۔ اپنی جوانی کے بنائے کسی آئیڈیل معیار کے مطابق نہیں۔ اور نہ ہی اپنی نظر میں اپنے استاد کے معیار کا غلط تصور رکھ کر۔
تمہارے لئے خوشی کی دعا۔
رچرڈ فائنمین”
(جاری ہے)