کائنات کو سمجھنے میں ہمیں ہر جگہ عجیب سوالات کا سامنا ہے۔ یہ کائنات اتنی بڑی کیوں ہے؟ چھوٹے سکیل پر ذرات کا behaviour ایسا کیوں ہے جس کی کوئ...
کائنات کو سمجھنے میں ہمیں ہر جگہ عجیب سوالات کا سامنا ہے۔ یہ کائنات اتنی بڑی کیوں ہے؟ چھوٹے سکیل پر ذرات کا behaviour ایسا کیوں ہے جس کی کوئی تّک نہیں بنتی؟ خلا کیا ہے؟ یہ سب کچھ کہاں سے آیا؟
یہ سب پرسرار ہے۔ اور اس میں کچھ مسئلہ نہیں۔ یہی تو سب کچھ دلچسپ بناتا ہے۔ لیکن سب سے بڑا اسرار خود زندگی ہے۔ اور اس کے ساتھ بہت سے سوال منسلک ہیں۔ مثلاً، کیا کائنات میں زندگی کا ہونا ناگزیر ہے؟
لیکن زندگی کا سب سے بڑا سوال شاید یہ رہا ہے کہ اس کے آخر میں کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔
قدیم مصر میں حنوط کردہ ممیاں اور امراء کے شاندار مقبرے ۔۔۔ یہ اس امید میں تھے کہ ان کی زندگی یہیں سے دوبارہ شروع ہو جائے گی۔
زندگی کو زیادہ سے زیادہ کھینچنے کی خواہش ہماری نفسیات کا حصہ ہے۔ اسی بارے میں ایک “دلچسپ” کوشش مصر کی ممیوں کی طرز کی ہے جو کہ کمرشلی دستیاب ہے۔ یہ خود کو منجد کر دینے کی ٹیکنالوجی ہے جو cryonics کہلاتی ہے۔
سوال یہ کہ کیا یہ محض پاگل پن ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندہ رہنا اور اپنے جین آگے پھیلانا زمین پر زندگی کے اربوں تسلسل کا بنیادی محرک ہے۔ تو اس میں کچھ تعجب نہیں کہ موت کو موخر کرنا انسان کی بڑی خواہش رہی ہے۔
طب کی شعبے کا کام ہی یہی ہے کہ موت کو ممکنہ حد تک آگے دھکیلا جائے۔ اسی خواہش کی وجہ سے ہم نے علاج تلاش کئے، اینٹی بائیوٹک بنائیں، ویکسین ایجاد کیں، اعضاء کی پیوند کاری کی۔ سٹیم سیل تھراپی اور جین ایڈٹنگ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔
ہمیشہ ایسے لوگ رہے ہیں جو ٹیکنالوجی کے بارے میں یہ سوال کرتے رہے ہیں کہ کہیں ہم ضرورت سے زیادہ آگے تو نہیں جا رہے۔ جو کر رہے ہیں وہ فطرت کے خلاف تو نہیں؟ لیکن پھر، یہ سب کرنا بھی ہماری فطرت کا ہی نتیجہ ہے۔
آخرکار، اگر کینسر کا علاج مل جائے تو کیا اسے ڈھونڈنے پر تنقید کی جائے گی؟ بڑھاپے کا سدِباب مل جائے تو کیا اسے روک دیں گے؟
اور اگر موت کو شکست دی جا سکے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کو زیادہ سے زیادہ کرنے کی جستجو متنازعہ نہیں۔ اور دوسری طرف، ٹیکنالوجی کی تحقیق میں کوئی نقطہ اختتام نہیں۔
موت کی اپنی تعریف بدلتی رہی ہے۔ کسی وقت میں نبض رک جائے یا دل کی دھڑکن بند ہو جائے تو شخص کو مردہ قرار دے دیا جاتا تھا۔ پھر میڈیسن میں ہم نے سیکھا کہ رکے ہوئے دل کو کیسے دوبارہ چالو کیا جا سکتا ہے۔ دل کے بند ہو جانے کا لازم مطلب یہ نہیں کہ شخص فوت ہو گیا ہے۔ پھر، لائف سپورٹ پر زندہ رکھنا سیکھا۔
موت کی ایک سٹیج دل کا رکنا ہے۔ یہ کلینکل موت ہے۔ پھر ایک سٹیج، دماغ کے فنکشن بند ہو جانے کی ہے۔ یہ قانونی موت ہے۔
کئی بار کہا جاتا ہے کہ ایک اور سٹیج وہ ہے جب دماغ کے آپسی کنکشن اور سٹرکچر اس حد تک شکستہ ہو جائیں کہ ان سے کچھ بھی انفارمیشن اخذ نہ کی جا سکے۔ کچھ لوگ اس کو info death کہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی ٹیکنالوجسٹ زندگی کے جاری رہنے کیلئے شعور کو محفوظ کرنے کی بات کرتے ہیں جسے پھر کسی روبوٹک جسم میں منتقل کیا جا سکے تا کہ ایک شخص کی زندگی جاری رہے۔ لیکن اس میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہ طریقہ کاپی بنانے کا ہے۔ اگر بالفرض ایسا کبھی ممکن ہو بھی جائے تو خیال یہی ہے کہ نیا وجود ایک الگ شخص ہو گا۔ اور اس وجہ سے زندگی اور شعور کے جاری رکھنے کیلئے اصل دماغ کو برقرار رکھنا ہے اور یہاں پر جو آئیڈیا آتا ہے، وہ cryonics کا ہے۔
کرائیونکس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اگر info death سے پہلے دماغ کو محفوظ کر لیا جائے تو یہ امکان باقی رہتا ہے کہ زندگی کا ناطہ واپس یہی سے شروع کیا جا سکے اور اس صورت میں شخصیت برقرار رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں خیال یہ ہے کہ جسم کو مستقبل کے لئے محفوظ کر لیا جائے جب تک میڈیکل ٹیکنالوجی اتنی ترقی نہ کر لے کہ اس کا علاج کر سکے۔
کرائیونکس کے خیال کو میڈیکل کمیونیٹی میں کچھ خاص حمایت حاصل نہیں ہے۔ اس کو ایک عجیب سا سائنسی تجربہ سمجھا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک نظر اس پر کہ یہ کیا کیسے جاتا ہے۔
(جاری ہے)