مطیع اللہ جان ۔ اسلام آباد اسلام آباد ہائی کورٹ نے نارووال سپورٹس کمپلیکس کے نیب ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال کو بر...
مطیع اللہ جان ۔ اسلام آباد
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نارووال سپورٹس کمپلیکس کے نیب ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال کو بری کر دیا ہے۔
نارووال سٹی سٹیڈیم سے متعلق نیب ریفرنس میں بریت کے لیے احسن اقبال کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس سمن رفعت پر مشتمل دو رکنی بنچ نے درخواست کی سماعت کی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نارووال سپورٹس سٹیڈیم عوامی مفاد کا ایک منصوبہ تھا اور اسکو نیب کیوجہ سے روک دیا گیا تو کیا جو مالیت میں اضافہ ہوا وہ نیب ادا کریگا؟ جس سیکریٹری کو وعدہ معاف گواہ بنایا اسکا بیان پڑھا ہے؟ 2009 میں جب منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہو گیا تو کیا اسوقت ملزم عوامی عہدہ رکھتا تھا؟
نیب کے وکیل نے تسلیم کیا کہ اب اس کیس میں صرف لاگت میں اضافے اور مالیاتی نقصان کا الزام رہ گیا ہے، 1999 میں منصوبہ بننے کے بعد مارشل لأ لگا تو تاخیر کے باعث لاگت بڑھ گئی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تو پھر مارشل حکام کو گرفتار کرتے، آپ یہ بتائیں آپ نے ملزم کو گرفتار کیوں کیا تھا؟ آپ نے وعدہ معاف گواہ کے قانون کا بھی غلط استعمال کیا، آپ نے آید چیمہ جیسے بہترین کارکردگی والے افسر کو بھی جیل بھیج دیا، اس تمام کاروائی میں عوامی مفاد کے منصوبے کو نقصان پہنچایا، اسکو مارشل لأ والوں نے یا آپکے نیب نے نقصان پہنچایا اور پکڑ لیا آپ نے احسن اقبال کیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ ملزم کسی عوامی عہدے پر تھا؟ یہ منصوبہ قومی اقتصادی کونسل سے منظور ہوا تو کیا نیب کونسل کے تمام اراکین کو پکڑے گی، نیب کرپشن کو چھوڑ کر کسی اور طرف چل پڑی ہے۔ آپکی تمام باتیں آپکے اختیارات سے تجاوز تھا، آپ نے ملزم کو گرفتار کیوں کیا تھا، اسکا مقصد کیا تھا؟ اس کیس میں کرپشن کا کوئی پہلو نہیں نکلتا اور لاگت میں اضافے کی ذمے دار خود نیب ہے،
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ اس نقصان کی ذمے داری کس کی ہے، اگر مارشل لأ والے ذمے دار تھے تو انکو پکڑنا تھا۔ آپ لوگوں کی شھرت کیساتھ اس طرح کھیلتے ہیں؟ آپنے ملزم کو جیل میں بھی رکھا اور ایک ذرا برابر بھی کرپشن کا ثبوت نہیں ملا
تفتیشی افسر نے کہا کہ احسن اقبال نے پورے پاکستان کے سپورٹس کے بجٹ کا 90 فیصد صرف اس منصوبے کے کیے مختص کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا یہ فنڈ ملزم کی جیب میں گیا؟ کیا یہ پیسہ نارووال کے عوام پر لگانے پہ آپکو اعتراض تھا؟ کیا نیب نے یہ طے کرنا ہے کہ کونسا فنڈ کہاں لگے گا؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر لاگت میں اضافہ نیب کے نزدیک کرپشن ہے تو پھر خود نیب پر یہ مقدمہ چلنا چاہئیے اور کسی میٹرو واچ اخبار میں یہ خبر چھپی تو کیا چئیرمین نیب نے خبر کے حقائق کی تصدیق کی؟ تو کیا صرف اس خبر پر ایک ریفرنس بنا دیا گیا؟ اس عدالت نے اسوقت مروجہ نیب قانون کے مطابق اس کیس کا فیصلہ کرنا ہے۔
تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزم منصوبے کے ڈیزائنر کے ساتھ مشاورت بھی کرتے رہے۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ انٹر پارلیمنٹری وزارت کے سیکریٹری نے پی سی ون پلاننگ کی وزارت کو بھیجا گیا تو ملزم نے بطور وزیر اسکو سینٹرل ورکنگ پارٹی کو بھیجا جس نے اس منصوبے کی منظوری دی، چیف جسٹس نے پوچھا کہ تو پھر سی ڈبلیو پی کے تیس اراکین کو نیب نے کیوں نہیں پکڑا؟ نیب کے وکیل نے کہا کہ نیب قانون میں ترمیم کی بعد سی ڈبلیو پی اور ایسے فورمز کیخلاف نیب کاروائی نہیں کر سکتی، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت ان ترامیم کے تحت فیصلہ نہیں کریگی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2020 میں جو اپنے فیصلے میں سیاسی انجینئیرنگ کا ذکر کیا ہے تو یہ پولیٹیکل انجینئیرنگ کا ایک کلاسک کیس ہے، آپکو بہت ٹائم دے چکے ہیں۔
ن لیگ کے سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کیخلاف نیب نے نارووال سپورٹس سٹیڈیم کی تعمیر میں بد عنوانی کے الزام میں ریفرنس دائر کیا اور دو ماہ تک انکو جیل میں بھی رکھا۔ 2019 میں دائر کردہ ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ احسن اقبال نے بطور وزیر اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے حلقے میں اس منصوبے کے لئیے فنڈز منظور کروائے، ۲۰۰۹ میں شروع ہونے والے اس منصوبے کی ابتدائی لاگت تہتر کروڑ روپے سے بڑھ کر دس سال میں تین ارب روپے تک پہنچ گئی، نیب کا الزام تھا کہ اس لاگت میں اضافہ قانون کے مطابق منظوری کے بغیر ہوا، تازہ ترین خبروں کے مطابق نارووال سپورٹس سٹیڈیم کے منصوبے پر 80 فیصد بجٹ استعمال ہو چکا ہے اور سٹیڈیم اسوقت بھی قابل استعمال نہیں۔