Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
True

Pages

بریکنگ نیوز

latest

فارن فنڈنگ، الیکشن کمیشن کے فیصلے پر عمل درآمد کا طریقہ کار کیا ہے؟

الیکشن کمیشن کے تحریری فیصلے میں یہ قرار دیا جاچکا ہے کہ تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ حاصل کرتی رہی ہے۔تحریک انصاف پر ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے کے ...

الیکشن کمیشن کے تحریری فیصلے میں یہ قرار دیا جاچکا ہے کہ تحریک انصاف ممنوعہ فنڈنگ حاصل کرتی رہی ہے۔تحریک انصاف پر ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے کے بعدآگے کیا ہوا۔اس حوالے سے تمام طریقہ کار سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین رکنی بنچ نے طے کر رکھا ہے۔

پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس اور عمران خان کو تاحیات نااہل قرار دینے کے لیے ن لیگی رہنما حنیف عباسی نے آرٹیکل 184کی شق تین کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا تھا.

سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار،سابق جج فیصل عرب اور موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سنا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے پہلا سوال یہ تھا کہ کسی سیاسی جماعت نے ممنوعہ فنڈنگ لی ہے یا نہیں؟یہ تعین کیسے ہوگا؟
سپریم کورٹ نے اس سوال کا جواب یوں دیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہی وہ مجاز فورم ہے جس نے یہ تعین کرنا ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے فارن یا ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی ہے یا نہیں،اور اگر الیکشن کمیشن یہ کہہ دے کہ کسی سیاست جماعت نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی ہے تو پھر باقاعدہ اُس سیاسی جماعت کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرکے وضاحت طلب کی جائے گی کہ فنڈز کیوں ضبط نہ کیے جائیں۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کی کارروائی چلانے کا اختیار وفاقی حکومت کو حاصل ہے ، الیکشن کمیشن کو اختیار محض ممنوعہ فنڈز ضبط کرکے قومی خزانے میں جمع کرانے تک کا ہے۔

کسی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

اس سوال کا سپریم کورٹ نے یہ جواب دیا ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پر الیکشن کمیشن معاملہ وفاقی حکومت کو بجھوائے گی،وفاقی حکومت تمام پہلوؤں کاجائزہ لے کر 15 دن کے اندر اندر سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجے گی۔

وفاقی حکومت کیا ہے؟سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی قرار دیا ہے کہ وفاقی حکومت کا مطلب مصطفی اپمپکٹ کیس کے تناظر میں وفاقی کابینہ ہے،الیکشن کمیشن کے بعد وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیجا جائے گا۔

وفاقی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں بھیجے گئے ریفرنس پر عدالت عظمیٰ فیصلہ برقرار رکھتی ہے تو سیاسی جماعت تحلیل ہوجائے گی۔

اگرکسی سیاسی جماعت کا سربراہ الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے ممنوعہ فنڈنگ نہ وصول کرنے سے متعلق سرٹیفکیٹ میں غلط بیانی کرے تو کیا اُسے تاحیات اناہل قرار دیا جاسکتا ہے؟

سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس سوال فیصلے میں یوں دیا ہے کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کی طرف سے الیکشن کمیشن میں پیش کردہ سرٹیفکیٹ میں اگر غلط بیانی کی گئی وہ تو آرٹیکل 62ون ایف (یعنی تاحیات نااہل) ہوسکتا ہے یا نہیں یہ تعین کرنا کورٹ آف لاء کے ذمہ ہے۔

کورٹ آف لاء کیا ہے؟

کورٹ آف لاء ٹرائل کورٹ یا ہائیکورٹ کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔عدالتی تاریخ میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جہاں سپریم کورٹ آف پاکستان براہ راست آرٹیکل 184کی شق تین کے تحت بطور ٹرائل کورٹ بھی کارروائی آگے بڑھا سکتی ہے۔

پاناما کیس میں سپریم کورٹ نے تفتیش کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی اور ساتھ ہی جے آئی ٹی کی نگرانی کیلئے سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الا احسن کو بطور مانیٹرنگ جج تعینات کر دیا تھا۔